1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چار عشروں تک پہلو بہ پہلو دو الگ الگ جرمن ریاستیں

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی، امجد علی، ادارت: مقبول ملک21 مئی 2009

جرمن سرزمين پر چار عشروں تک دو ايسے ملک قائم رہے، جو ايک دوسرے کے دشمن بلاکوں ميں شامل تھے۔ مغرب ميں وفاقی جمہوريہ جرمنی اور مشرق ميں جرمن ڈيموکريٹک ريپبلک تھی۔

https://p.dw.com/p/Hugr
مغربی اور مشرقی جرمنی کو جدا کرنے والی برلن دیوار۔ یہ تصویر انیس سو اکسٹھ میں لی گئی تھیتصویر: AP

جب 1989ء ميں مشرقی جرمنی کی کميونسٹ رياست کاخاتمہ ہوا، تب ماسکو ميں ميخائيل گورباچوف کی حکمرانی تھی۔ 12 جون 1989ء کو سوويت صدر گورباچوف نے مغربی جرمنی کا دورہ کيا۔ اُس وقت مغربی جرمنی کا دارالحکومت بون تھا۔ اُس کے بعد کے چاردنوں ميں جو کچھ ہوا، وہ ايک عام سرکاری دورے سے کہيں زيادہ اور غيرمعمولی تھا۔ يہ واضح ہوگيا تھا کہ جرمن عوام ميں گورباچوف کا تاثر بہت اچھا تھا۔ وہ پہلی بار ايک سوويت حکمران کے لئے اس قدر ہمدردی محسوس کررہے تھے، جو دنيا اور يورپ کو تبديل کرنا چاہتا تھا۔

اِس کے چند ماہ بعد ہی گورباچوف نے کميونسٹ جرمن رياست جرمن ڈيموکريٹک ريپبلک کا دورہ کيا، جس ميں اُنہوں نے وہاں کے حکمرانوں پر يہ واضح کيا کہ وہ بھی انتہائی نوعيت کی تبديليوں سے بچ نہيں سکتے۔

Berliner Mauer wird zerstört, 1989
اور دیوار ٹوٹ گئی۔۔۔ انیس سو نواسی میں ایک شخص ہتھوڑا ہاتھ میں لیےکر دیوارِ برلن کو منہدم کرتا ہواتصویر: AP

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد مشرقی جرمنی کو ايک بہتر جرمن رياست بنانے کا کام بڑے جوش وخروش سے شروع کيا گيا تھا۔ 23 مئی 1949ء کو وفاقی جمہوريہ جرمنی قائم ہوئی اور 7 اکتوبر 1949ء کو مشرقی برلن ميں جرمن ڈيموکريٹک ريپبلک کی بنياد رکھی گئی۔ اُس کے صدر ولہیلم پيک نے جرمن سرزمين پر محنت کشوں اور کسانوں کی پہلی رياست کے قيام کا اعلان کيا اور کہا: ’’جرمن دارالحکومت برلن ميں تمام سياسی پارٹيوں اور جرمن عوامی کونسل کی تمام بڑی تنظيموں نے تيسری جرمن عوامی کانگريس کے منظورکردہ آئين کی بنياد پر متفقہ طور سے جرمن ڈيموکريٹک ريپبلک کے قيام کی منظوری دی ہے۔‘‘

اس کے ساتھ ہی تقريباً سترہ ملين جرمنوں پر ايس پی ڈی اور کميونسٹ پارٹی کے ملاپ سے وجود ميں آنے والی جرمن سوشلسٹ اتحاد پارٹی ايس ای ڈی کی حکمرانی کا آغاز ہوا۔ مشرقی جرمن رياست پر سوويت يونين کا سياسی اثر بالکل واضح تھا۔ اسی کے نتيجے ميں وہاں سوويت قائد اسٹالن کی شخصيت پرستی کا غلبہ تھا۔

مشرقی جرمنی کے نوجوانوں کی تنظيم کے اس وقت کے قائد ايرش ہونيکر نے کہا تھا: ’’دنيا ميں امن اور ترقی کے علمبردار اور جرمن قوم کے بہترين دوست جوزف اسٹالن زند ہ باد۔‘‘

ليکن مشرقی جرمن قيادت کی تمام کوششوں کے باوجود عوام ميں سوشلسٹ رياست کے لئے حمايت اور جوش پيدا نہيں ہوسکا۔ 1953ء ميں برلن کے محنت کشوں کی بغاوت کو بےدردی سے کچل ديا گيا۔ مشرقی جرمن باشندے بڑی تعداد ميں فرار ہو کر مغربی جرمنی پہنچنے لگے۔ ملک ميں ہنرمند کاريگروں، ڈاکٹروں، انجينئروں اور اساتذہ کی قلت پيدا ہوگئی۔ تيرہ اگست 1961ء کے روز مشرقی جرمن حکومت نے برلن شہر کے بيچوں بيچ ايک ديوار کی تعمير شروع کر دی۔ اِس ديوار نےاگلے 28 برسوں تک گھرانوں کوتقسيم کئے رکھا۔ 9 نومبر 1989ء کو مشرقی جرمنی نے مغربی جرمنی سے ملنے والی سرحد کھول دی۔