1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چار ٹریلین ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کا حصول

27 فروری 2010

امریکی سائنسدانوں نے لیبارٹری میں اب تک کا سب سے زیادہ درجہ حرارت پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، جو چار ٹریلین ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اس درجہ حرارت پر ہرقسم کا مادہ سیال میں تبدیل ہوسکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/MDgj
تصویر: AP

محققین کا خیال ہے کہ کائنات کی پیدائش کے فوری بعد ایک سیکنڈ کے لاکھویں حصے کے لئے مادہ اسی کیفیت میں رہا ہوگا۔

امریکی سائنسدانوں نے اس مقصد کے حصول کے لئے نیویارک میں موجود بروک ہیون نیشنل لیبارٹری کے یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف انرجی میں موجود ایٹم توڑنے والی ایک بہت بڑی اور جدید مشین میں سونے کے آئنز کو آپس میں ٹکرایا۔ اس ٹکراؤ کا نتیجہ بہت زیادہ درجہ حرارت خارج کرنے والے دھماکوں کی شکل میں نکلا، جو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے تک ہی قائم رہا۔

تاہم اتنے چھوٹے سے وقت کے لئے حاصل ہونے والی کامیابی نے سائنسدانوں کو کئی برس کی تحقیق کے لئے مواد فراہم کردیا ہے، جس کے ذریعے وہ یہ راز جاننے کی کوشش کریں گے کی کائنات کیوں اور کیسے وجود میں آئی۔

Hubble Bilder Bislang tiefstes Bild vom Universum
اس کامیابی سے محققین کو بگ بینگ کے فوری بعد کی صورتحال جاننے میں مددگار ملے گیتصویر: AP

بروک ہیون لیبارٹری کے محقق سٹیفن وِگڈور نے اس کامیابی کے بعد واشنگٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ درجہ حرات ایٹمی ذرات پروٹونز اور نیوٹرانز کو پگھلانے کے لئے کافی ہے۔

یہ انتہائی چھوٹے ذرات مل کر ایٹم بناتے ہیں۔ تاہم یہ خود جن ذرات سے مل کر بنتے ہیں انہیں Quarks اور Gluons کہا جاتا ہے۔ دراصل ماہرین طبیعات وہ باریک تفصیلات جاننے کے لئے کوشاں ہیں جن سے معلوم ہوسکے کہ پیدائش کائنات سے قبل کے گرم سیال سے، موجودہ شکل میں مادہ کیسے وجود میں آیا۔

اس کے علاوہ سائنسدان اپنی اس تحقیق کو زیادہ قابل عمل ایپلیکیشنز کے لئے بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں،جیسے Spintronics کے میدان میں، جس کا مقصد کمپیوٹرز کے میدان میں مزید چھوٹے طاقتور اور تیز آلات کی تیاری ہے۔

سائنسدانوں نے سونے کے آئنز کو ٹکرانے کے لئے نیویارک میں موجود Relativistic Heavy Ion Collider یعنی RHIC کو استعمال کیا ۔ یہ پارٹیکل کولائیڈر 3.8 کلومیٹر طویل ہے جبکہ اسے زمین کے اندر 12 فٹ گہرائی میں نصب کیا گیا ہے۔

سٹیفن وِگڈور کا کہنا ہے کہ RHIC کودراصل بنایا ہی اسی مقصد کے لئے گیا تھا کہ مادے کی اُس شکل کا مشاہدہ کیا جاسکے جو کائنات کے وجود میں آنے کے فوری بعد موجود تھی۔ محققین کے مطابق اس مقصد کے لئے چار ٹریلین ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کا حصول قریب ترین ہوگا۔

چار ٹریلین ڈگری سینٹی گریڈ کتنا گرم ہوتا ہے، اس کی وضاحت کے لئے وگڈور نے چند مثالیں دیں۔ انہوں نے بتایا کہ پروٹونز اور نیوٹرونز کو پگھلانے کے لئے دو ٹریلین ڈگری سینٹی گریڈ کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ کائنات میں موجود ٹائپ ٹو ستارے یعنی سپر نووا کے مرکز میں درجہ حرارت کا اندازہ دو بلین ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں موجود سورج کے مرکز کا درجہ حرارت 50 ملین ڈگری سینٹی گریڈ ہے، جبکہ لوہا صرف 18 سو ڈگری سینٹی گریڈ پر پگھل جاتا ہے۔

رپورٹ : افسر اعوان

ادارت : ندیم گِل