1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چوبیس گھنٹوں کے دوران ایک بھی تارک وطن یونان نہیں پہنچا

عاصم سليم24 مارچ 2016

پناہ گزينوں کی يورپ کی جانب غير قانونی ہجرت روکنے کے ليے ترکی اور يورپی يونين کے مابين حال ہی ميں طے پانے والے معاہدے کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ پچھلے چوبيس گھنٹوں سے ايک بھی تارک وطن ترکی سے يونان نہيں پہنچا۔

https://p.dw.com/p/1IJYw
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

ايتھنز حکام نے آج بروز جمعرات اعلان کيا ہے کہ پچھلے چوبيس گھنٹوں سے بحيرہ ايجيئن کے راستے کوئی بھی تارک وطن يونانی جزائر تک نہيں پہنچا ہے۔ يونان ميں مہاجرين کے بحران سے نمٹنے والے ادارے نے متنبہ کيا ہے کہ پناہ گزينوں کی آمد ميں رکاوٹ کی وجہ بحيرہ ايجيئن ميں خراب موسم بھی ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ بدھ سے اس سمندر ميں طوفانی سلسلہ جاری ہے۔

گزشتہ ہفتے جمعے کے روز يورپی يونين اور ترکی کے مابين ايک معاہدہ طے پايا تھا جس کا مقصد بحيرہ ايجيئن کے راستے غير  قانونی ہجرت کو روکنا ہے۔ اگرچہ اس ڈيل پر عملدرآمد گزشتہ اتوار کے روز ہی شروع ہو چکی تھی تاہم پھر بھی مہاجرين کی يونان آمد کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ يہ پہلا موقع ہے کہ پورے چوبيس گھنٹوں ميں کوئی بھی نیا تارک وطن يونانی جزائر تک نہيں پہنچا۔

دوسری جانب فرانسيسی وزير دفاع Jean-Yves Le Drian نے جمعرات چوبیس مارچ کے روز ’یورپ ون‘ نامی ریڈیو اسٹیشن کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں خبردار کيا ہے کہ اس وقت ہزاروں مہاجرين ليبيا ميں موجود ہيں اور يورپ پہنچنے کی تاک ميں ہيں۔ يہ خدشات پائے جاتے ہيں کہ بحيرہ ايجيئن کے راستے یونان اور پھر وہاں سے جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک پہنچنے کا راستہ بند ہونے کے بعد تارکين وطن اور بھی زيادہ خطرناک راستے اختيار کرنے پر مجبور ہو سکتے ہيں۔

بحيرہ روم کے دوسری طرف ليبيا ميں تقريباً آٹھ لاکھ مہاجرين يہ اميد لگائے بيٹھے ہيں کہ وہ کسی نہ کسی طرح يورپ پہنچ سکيں۔ اقوام متحدہ کی ايجنسی برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر کے مطابق سال رواں کے پہلے دو ماہ ميں يورپ پہنچنے کے ليے تقريباً ايک لاکھ پناہ گزينوں نے بحيرہ روم کا سفر طے کيا۔