1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چينی سزا يافتہ ’دہشت گردوں‘ کی تعداد ايک سال ميں دوگنا

عاصم سليم13 مارچ 2016

ايشيائی ملک چين ميں مسلمان اکثريت والے خطے سینکيانگ ميں کريک ڈاؤن اور ملکی سطح پر سول سوسائٹی کے خلاف کارروائيوں کے نتيجے ميں ’رياست کے خلاف جرائم‘ کی شرح ميں پچھلے سال دو گنا اضافہ ريکارڈ کيا گيا ہے۔

https://p.dw.com/p/1ICPr
تصویر: picture-alliance/Imaginechina

چينی عدالتوں نے سن 2015 کے دوران 1,419 افراد کو ’پرتشدد دہشت گردی‘ اور ’قومی سلامتی کو خطرے ميں ڈالنے‘ سے منسلک جرائم ميں سزا کا حقدار قرار ديا۔ سپريم پيپلز کورٹ کے سربراہ ژُو کيانگ نے يہ انکشاف ايک رپورٹ ميں کيا، جسے دارالحکومت بيجنگ ميں جاری کميونسٹ حکومت کی نيشنل پيپلز کانگريس يا چينی پارليمان کے سالانہ اجلاس ميں تيرہ مارچ کے روز پيش کيا گيا۔ سن 2014 ميں اسی طرز کے جرائم کی کُل تعداد 712 تھی۔ ژُو کے مطابق عدالتيں انسداد دہشت گردی اور عليحدگی پسندوں کے خلاف کارروائيوں ميں براہ راست شريک تھيں اور اسی کے نتيجے ميں متعلقہ افراد کو مجرمان قرار ديا گيا۔

رپورٹ کے مطابق 1084 افراد کو پر تشدد دہشت گردانہ جرائم کے مرتکب پائے جانے پر سزائيں سنائی گئيں جبکہ 335 کو قومی سلامتی کے ليے خطرہ ثابت ہونے والی سرگرميوں کے سبب مجرم قرار ديا گيا۔ ايک چينی قانونی ماہر سوزين فنڈر کے مطابق، ’’چين ميں اگر قومی سلامتی کو خطرے ميں ڈالنے والے جرائم کی فہرست پر نظر ڈالی جائے، تو عين ممکن ہے کہ انسانی حقوق کے ليے سرگرم کارکنان بھی ان ميں سے کچھ کے مرتکب پائے گئے ہوں گے۔‘‘ خبر رساں ادارے اے ايف پی کی رپورٹوں کے مطابق چين ميں گزشتہ سال داخلی سطح پر سول سوسائٹی کے خلاف دباؤکافی بڑھا ديا گيا تھا اور اسی سلسلے ميں سول حقوق کے ليے سرگرم وکلاء اور کارکنان کی بڑے پيمانے پر گرفتارياں عمل ميں آئيں۔

کميونسٹ حکومت کی نيشنل پيپلز کانگريس يا چينی پارليمان کا سالانہ اجلاس
کميونسٹ حکومت کی نيشنل پيپلز کانگريس يا چينی پارليمان کا سالانہ اجلاستصویر: Getty Images/AFP/G. Baker

چين ميں يہ پيش رفت قومی سلامتی کے نئے منظور شدہ ايک ايسے متنازعہ قانون کے تناظر ميں ہو رہی ہے، جس کے بارے ميں ماہرين کا کہنا ہے کہ اس سے سياسی مخالفين کے خلاف کارروائی کے ليے حکومت کے اختيارات ميں اضافہ ہو گيا ہے۔ سن 2015 کے دوران مجموعی طور پر 1.232 ملين ملزمان کو مجرم قرار ديا گيا جبکہ 1039 کو ان پر لگائے گئے الزامات ميں بے قصور پايا گيا۔

چين ميں ملزمان سے جرم تسليم کروانے کے عمل ميں طاقت کا استعمال عام ہے۔ انسانی حقوق سے منسلک کئی گروپوں کا کہنا ہے کہ جرائم کے مقدموں ميں اکثر اوقات ملزمان صحيح انداز ميں اپنا دفاع نہيں کر پاتے، جس سبب غلط فيصلے بھی ہو جاتے ہيں۔ يہ بھی مانا جاتا ہے کہ چينی عدالتوں پر سياسی اثر و وسوخ انتہائی زيادہ ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ چين ميں داخلی سطح پر عوام ’نا انصافی‘ کے معاملے پر کافی برہم ہيں اور ايسی مثاليں بھی ملتی ہيں جب عدالتوں کو سزائے موت کے فيصلوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے انہيں بدلنا پڑا۔