1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چھوٹو گینگ کا سربراہ غلام رسول چھوٹو کہاں ہے؟

تنویر شہزاد، لاہور25 اپریل 2016

راجن پور کے کچے کے علاقے میں ہونے والے ایک ’مسلح آپریشن‘ کے بعد فوج کی تحویل میں لیے جانے والے بدنام زمانہ ڈاکو اور چھوٹو گینگ کے سربراہ غلام رسول چھوٹو کے بارے میں کئی روز گذرنے کے بعد بھی کوئی اطلاعات نہیں مل رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1IcPp
Pakistan Punjab Hauptminister Shahbaz Sharif
پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف راجن پور میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لواحقین سے ملاقات کر رہے ہیںتصویر: DGPR

چھوٹو کو کہاں رکھا گیا ہے، اس سے تفتیش میں کیا حقائق سامنے آئے ہیں، اس کا مستقبل کیا ہے، اس بارے میں پنجاب پولیس کے اعلیٰ حکام کے پاس بھی کوئی خاص اطلاعات نہیں ہیں۔

آپریشن ’ضرب آہن‘ میں پولیس کے نوجوانوں کے جاں بحق ہونے کے تقریباً 15 دنوں بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سوموار کے روز راجن پور میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لواحقین سے ملاقات کرنے کے لیے راجن پور پہنچے تو اس موقعے پر جاری کیے جانے والے روایتی سرکاری ہینڈ آؤٹ میں بھی چھوٹو کے حوالے سے کسی قسم کی اطلاعات موجود نہیں تھیں۔ مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ چھوٹو گینگ سے ہونے والی تفتیش کے بعد پنجاب کے ایک اہم وزیر سمیت حکمران پارٹی کی چند اہم سیاسی شخصیات کو بھی شامل تفتیش کیا جا سکتا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پنجاب میں انسداد دہشت گردی کے محکمے کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ فوج کی حراست میں موجود چھوٹو گینگ کے سربراہ غلام رسول چھوٹو سے ایک خفیہ ادارے کے اہلکار ایک خفیہ مقام پر تفتیش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول چھوٹو سے سرحد پار رابطوں، غیر ملکی اسلحے کے حصول، کالعدم تنظیموں کے ساتھ اس کے ممکنہ رابطوں اور اس کی جرائم پیشہ سرگرمیوں کے پیچھے کارفرما نیٹ ورک کے بارے میں معلومات حاصل کی جا رہی ہیں:’’اس تفتیش کی تکمیل کے حوالے سے حتمی تاریخ بتانا تو ممکن نہیں ہے لیکن توقع یہی ہے کہ ایک ہفتے تک یہ تفتیش مکمل کرکے چھوٹو کو قانونی کارروائی کی تکمیل کے لیے پولیس حکام کے حوالے کر دیا جائے گا۔‘‘

ادھر پنجاب کے پراسیکیوشن حکام نے اس آپریشن کے بعد جائے واردات سے شواہد اکھٹے کیے ہیں۔ پنجاب حکومت نے چھوٹو سے مزید تفتیش کے لیے ایک جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بھی بنا دی ہے۔ چھوٹو کے ابتدائی بیان کی ویڈیو بھی تیار کی جا چکی ہے۔

قابل اعتماد ذرائع کے ذریعے راجن پور سے موصولہ اطلاعات کے مطابق کچے کے علاقے میں چھوٹو کے علاوہ موجود دیگر گینگز کے قانون شکن عناصر فرار ہونے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ان گروہوں میں بلوچستان کی ایک کالعدم تنظیم اور بعض کالعدم فرقہ ورانہ گروہوں کی موجودگی کے امکانات بھی ظاہر کیئ جاتے رہے ہیں:’’یہ قانون شکن افراد رات کے اندھیرے میں طویل تیراکی کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ پانی میں نچلی سطح پر تیراکی کرتے ہوئے سانس لینے کے لیے پلاسٹک کی ایک دو سوراخ والی بوتل استعمال کرتے ہیں، پانی کی سطح کے اوپر صرف بوتل دکھائی دیتی ہے اور مجرموں کے فرار کا پتہ چلانا آسان نہیں تھا۔ جامد چوکیوں کے ذریعے اس علاقے کی مانیٹرنگ مؤثر ثابت نہیں ہو سکی۔‘‘

Pakistanische Polizisten
آپریشن ’ضرب آہن‘ کے حوالے سے پنجاب حکومت کی تحقیقات کے مطابق پہلے نہ تو علاقے کی ریکی کی گئی اور نہ اس علاقے میں انٹیلیجنس نیٹ ورک بنایا گیاتصویر: AFP/Getty Images/B. Khan

آپریشن ’ضرب آہن‘ کے بارے میں معلومات رکھنے والے قانون نافذ کرنے والے ایک ادارے کے ایک سینیئر اہلکار نے ان رپورٹوں کی تردید کی کہ غلام رسول چھوٹو کو کسی قسم کے آپریشن کے ذریعے گرفتار کیا گیا۔ ان کے نزدیک ڈیڑھ سو سے زائد ساتھیوں کے ہمراہ کچے کے علاقے میں موجود چھوٹو کو اس کے صرف 12 ساتھیوں سمیت قبائلی رہنماؤں کے ذریعے ہونے والے مذاکرات کے بعد اس کے رضاکارانہ طور پر پیش ہونے پر گرفتار کیا گیا۔

اس اہلکار کا مزید کہنا تھا:’’ڈاکوؤں کو ڈرانے کے لیے تو فائرنگ کی گئی لیکن ان کو فائرنگ کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ اس آپریشن کی ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کچا جمال کے اندرونی علاقوں کی صورتحال کا کوئی اندازہ نہیں تھا، اگر آپریشن کے ذریعے مجرموں کو فائرنگ کا نشانہ بنایا جاتا تو وہاں موجود 40 سے زائد خواتین اور بچے بھی اس کا شکار ہو سکتے تھے۔‘‘

ادھر پنجاب حکومت نے آپریشن ’ضرب آہن‘ کے حوالے سے اپنی تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔ ان تحقیقات کے مطابق سات پولیس اہلکاروں کے ہلاکت کا باعث بنے والے آپریشن کی پہلی کارروائی کے آغاز سے پہلے نہ تو علاقے کی ریکی کی گئی اور نہ اس علاقے میں انٹیلیجنس نیٹ ورک بنایا گیا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ آپریشن کے لیے جانے والی پہلی کشتی ہی ریت میں دھنس گئی۔‘‘

Pakistan Punjab Hauptminister Shahbaz Sharif
وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے دورہٴ راجن پور کے موقعے پر جاری کیے جانے والے روایتی سرکاری ہینڈ آؤٹ میں بھی چھوٹو کے حوالے سے کسی قسم کی اطلاعات موجود نہیں تھیںتصویر: DGPR

آپریشن والے مقام سے ملحقہ علاقے سون میانی کے ایک رہائشی عبدالکریم خان مزاری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے مذکورہ بالا تفصیلات کی تصدیق کی اور کہا کہ اکبر بگٹی کے بھتیجے اور سردار شہر باز خان مزاری کے بڑے بیٹے سردار شیر علی خان مزاری نے چھوٹو کو سرنڈر کرنے پر راضی کرنے میں اہم کردار ادا کیا:’’اس وقت کچے کے جنگل کو آگ لگائی جا چکی ہے، فوج کا بھاری اسلحہ واپس بھیجا جا رہا ہے، کچے کے علاقے میں اب کوئی نہیں ہے۔‘‘

راجن پور کے ڈی سی او اور ڈی پی او سے بار بار کوشش کے باوجود رابطہ نہیں ہو سکا تاہم ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر کے دفتر میں موجود اہلکاروں نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کے پاس چھوٹو کے حوالے سے کوئی اطلاعات نہیں ہیں، لیکن ڈاکوؤں سے بازیاب کروائے جانے والے ایک کانسٹیبل اختر حسین بھٹی کے والد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اغوا ہونے والے اہلکاروں کو آرام کے لیے چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے لیکن انہیں اس واقعے کی تحقیقات کے لیے آج کل بلا لیا جاتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کو ایوان وزیر اعلیٰ کے ذرائع سے خصوصی طور پر دستیاب ہونے والی معلومات کے مطابق چھوٹو اور اس کے ساتھیوں کو گرفتاری کے موقعے پر طے پانے والے معاہدے کی وجہ سے کسی مقابلے میں پار کر دیے جانے کے امکانات تو کم ہیں لیکن اس کو صفائی کا موقعہ دیتے ہوئے اس کے مقدمے کو فوجی عدالت میں چلانے کے لیے مشاورت ہو رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید