1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چھوٹی سی بچی فرح داعش سے کیسے بچی؟

عاطف توقیر
4 دسمبر 2017

شمالی عراقی شہر موصل میں داعش کے قبضے کے وقت چودہ برس کی فرح نے اپنے کمرے کو ایک نئی دنیا میں تبدیل کر دیا، تاکہ وہ شدت پسند تنظیم داعش کے ہاتھوں شہر کی بربادی اور ہول ناکی کے مناظر سے پرے جیے۔

https://p.dw.com/p/2ohrV
Syrien - Kinder im Krieg
تصویر: picture-alliance/AA/H. Nasar

جیسے ہی فرح 14 برس کی ہوئی، اس نے اپنے کمرے کی دیواروں کو تتلیوں کے نقوش سے عبارت کاغذ سے مزین کیا، حوصلہ بلند کرنے والے پیغامات ٹیپ سے چپکائے۔ یہ کمرہ نہایت خاص ہونا چاہیے تھا کیوں کہ یہ بچی یہاں اپنے شہر پر قابض داعش کی بربریت سے پرے رہنا چاہتی تھی۔

دنیا میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ، ہلاکتوں میں کمی

داعش کے ہاتھوں قتل عام، چار سو افراد کی اجتماعی قبریں دریافت

بکھرتی ’خلافت‘ کے صحراؤں کی خاک چھانتے جہادی

سن 2014ء میں اسلامک اسٹیٹ نے موصل پر قبضہ کر لیا تھا اور ایسے میں یہ کمرہ فرح کے لیے واحد جائے پناہ تھا۔ اس میں وہ قریب تین برس تک رہی۔ اسی کمرے سے فرح اپنے فیس بک پر خوف اور امید کی بابت لکھتی رہی۔ اس نے خودکلامی کے انداز میں کچھ مکالمے لکھے تھے

’’مسئلہ ہے کیا؟

’’مستقبل کھو گیا، سب کچھ ڈھ گیا۔‘‘

’’میں تمہارے احساسات کیسے سمجھوں؟‘‘

’’داعش کے علاقے میں رہ کر۔ جیسے خواب دیکھنے والا کوئی شخص داعش کے جہادیوں کے درمیان موجود ہو۔‘‘

فیس بک پر فرح کی یہ کہانی اور پوسٹس اسلامک اسٹیٹ کے قبضے کے دوران اس شہر کا روز کا احوال بیان کرتی ہیں۔ اس گروپ کے قبضے کے بعد یہ لڑکی ایک طرح سے دنیا سے کٹ گئی تھی۔ اس کے دوست شہر سے فرار ہو گئے۔ فرح کی دونوں بڑی بہنیں شادی شدہ تھیں اور اپنے نئے گھروں میں رہ رہی تھیں۔ فرح نے اسکول جانا، خود کو داعش کی شناخت سے متعارف کرواتی لڑکیوں کے خوف سے، چھوڑ دیا۔’’ ہر طرح خوف اور خطرہ تھا۔‘‘

داعش کے جہادی شہر کے گلی کوچوں میں کسی ’معمولی سے گناہ‘ کی بھی بو سونگھ لیتے تھے۔ فرح کے چچا کے گھر کے قریب جہادیوں نے ایک لڑکی کے برقع کے اندر لباس میں سرخ رنگ کا پتا چلا لیا تھا اور اس لڑکی کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ داعش نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں سرخ رنگ پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور تمام خواتین کو سر سے پاؤں تک فقط سیاہ برقعے میں قید کر دیا گیا تھا۔

فرح کے گھر کے قریب ایک بارہ سالہ بچی شدید گرمی میں فقط تازہ ہوا میں سانس لینے کو گھر کی چھت پر چڑھی تھی، اسی وقت ایک دوسرے گھر کی چھت پر ایک لڑکا تھا۔ دونوں کو دیکھ لیا گیا، جہادیوں کو معلوم ہو گیا۔ ان دونوں کو داعش کے عسکریت پسندوں نے حراست میں لیا اور پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا۔

داعش میں بھرتیوں کے خلاف سرگرم جرمن ’میونسپل مائیں‘

فرح  اور اس کے والدین اس پورے عرصے میں زیادہ تر وقت گھر کے اندر ہی قید رہے۔ اپنی فیس بک وال پر فرح نے ایک بار لکھا تھا، ’’کیا میراحق نہیں کہ میں کم از کم آزادی سے خواب دیکھ سکوں، اپنی زندگی کے بہترین برس آزادی سے جی سکوں۔ میں جاننا چاہوں گی کہ میں کب جیوں گی؟‘‘

فرح رات کو انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن آیا کرتی تھی۔ اس کے چھ ہزار فالورز تھے، جو اس کے حوصلے بلند کیا کرتے تھے اور امید دیا کرتے تھے۔

مگر رواں برس جولائی میں جب فرح اپنی سال گرہ منا رہی تھی، داعش نے انٹرنیٹ سروس ہی مکمل طور پر بند کر دی اور فرح کا رابطہ اس وقت تک دنیا سے کٹا رہا، جب تک عراقی فورسز نے اس شہر پر دوبارہ قبضہ نہیں کر لیا۔