چیف جسٹس افٹخار چوہدری اور عوامی توقعات
24 مارچ 2009صوبہ پنجاب میں ایڈہاک اساتذہ کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے اپنے روایتی انداز میں صوبائی حکام کو ہدایت کی کہ قانونی موشگافیوں میں پڑے بغیر اساتذہ کو فوری مستقل کیا جائے۔
اس سے قبل جسٹس افتخار محمد چوہدری جب سپریم کورٹ کے احاطے میں داخل ہوئے تو وہاں پر موجود سول سوسائٹی کے نمائندوں اور گمشدہ افراد کے لواحقین اور وکلاء نے زبردست نعروں کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا۔
دریں اثناء چیف جسٹس افتخار چوہدری نے شریف برادران کی اہلیت کیس کی نظر ثانی کی درخواست کی سماعت کے لئے 30 مارچ کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔ ادھر معروف وکیل اکرم شیخ نے 2 نومبر 2007ء کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں شامل کئے گئے ججوں کی تقرری کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں اس کے خلاف ایک آئینی درخواست بھی پیش کی ہے اس حوالے سے اکرم شیخ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ماضی کے غلط فیصلوں کی تصحیح کئے بغیر عدالتی نظام احسن انداز سے نہیں چل پائے گا۔
’’جو غیر آئینی تقرریوں کی ریگولائزیشن کا عمل شروع ہوگا کسی بھی تنازعے کو حل کرنے سے پہلے منصفین کے متعلق جو تنازعہ ہے اس کا حل ضروری ہے اور جس حد تک وہ ریگولائز ہو سکتا ہے ہونا چاہئے ۔‘‘
اکثر مبصرین اس امر پر متفق ہیں کہ چیف جسٹس اور ان کے ہم خیال ججوں کی بحالی کے لئے طویل جدوجہد ملک میں دراصل آزاد اور کرپشن سے پاک عدلیہ کی شدید خواہش کا اظہار تھی اور اس حوالے سے اعلیٰ عدالتوں کو عوامی توقعات کے باعث ایک بار پھر عوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔