1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی شہر اُرمچی سے ہزاروں افراد کی ہجرت

10 جولائی 2009

چینی شہر ارمچی میں سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود، ہزاروں شہری مزید فسادات کے خوف سے وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Il9U
سیکیورٹی فورسز کے ہزاروں سپاہیوں کی موجودگی کے باوجود شہر میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

دوسری جانب چینی حکومت نے ارمچی میں ابھی تک جاری نسلی کشیدگی کی وجہ سے وہاں کے ایغور نسل کے مسلمان باشندوں کو جمعہ کی نماز کے لئے مسجدوں میں جانے سے روک دیا۔

جمعہ کی نماز کے بعد ارمچی میں ایغور مسلمانوں کے ایک مظاہرے میں شریک متعدد افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ چینی حکومت نے آج ارمچی میں ممکنہ طور پر نئے پرتشدد واقعات کو روکنے کے لئے شہر کی تمام مسجدوں میں جمعہ کی نماز پڑھائے جانے پر پابندی لگا دی تھی۔ تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسی شہر میں سینکڑوں ایغور مسلمانوں کے احتجاج کے بعد کم ازکم ایک مسجد میں انہیں جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت دے دی گئی۔

بیجنگ حکومت کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز ہونے والی بدامنی کے خونریز واقعات میں ایسے ایغور باشندوں کا ہاتھ ہے جو بیرون ملک آباد ہیں۔ گذشتہ ویک اینڈ پر ارمچی میں وسیع تر بدامنی میں 156 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ چینی حکومت کے اس بیان کے رد عمل میں بیرون ملک مقیم ایغورنسل کے سرکردہ افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ چینی حکومت کا یہ بیان نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ یہ بدامنی پر امن مظاہرین پر بلاوجہ تشدد کے ساتھ شروع ہوئی۔

China Xinjiang Uiguren Muslime
چینی حکومت نے ایغور نسل کے مسلمان باشندوں کو جمعہ کی نماز کے لئے مسجدوں میں جانے سے روک دیاتصویر: AP

جرمن دارالحکومت برلن میں عالمی ایغور کانگریس کے نائب صدر اصغر جان کہتے ہیں کہ چینی حکومت کی سخت گیر پالیسیوں کی بدولت بیرون ملک آباد ایغور باشندے اپنے رشتہ داروں اور اہل خانہ کے بارے میں انتہائی فکر مند ہیں۔

’’جو لوگ ہمیں فون کرتے ہیں، یعنی ہمارے ہم وطن مرد اور خواتین، وہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہوتے ہیں۔ اگر وہ پکڑے جائیں تو انہیں عمر قید کی سزا ہوگی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں مار ہی دیا جائے۔‘‘

دوسری جانب ارمچی سے ہان اور ایغور، دونوں ہی نسلوں کے قریب 10 ہزار افراد مسلسل کشیدہ صورتحال کے پیش نظر شہر سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔ ارمچی سے موصولہ رپور‌ٹوں کے مطابق وہاں سے رخصت ہونے والے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسے شہریوں کو سفر کے لئے معمول سے کئی گنا زیادہ کرایہ ادا کرنا پڑ رہا ہے۔

چینی حکومت ارمچی کے فسادات میں ہلاک ہونے والے ایسے افراد کے اہل خانہ کو دو لاکھ ین کی مالی مدد فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو حکومت کی نظر میں ’’بے گناہ‘‘ تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی مالی مدد بھی ہر مرنے والے کے لواحقین کے نہیں ملے گی۔

دریں اثناء بیجنگ حکومت نے غیر ملکی صحافیوں کو ارمچی سے ایک ہزار کلو میٹر دور صوبے سنکیانگ ہی کے ایک اور شہر کاشغر سے بھی نکل جانے کے لئے کہہ دیا ہے جس کی وجہ سرکاری طور پر ’’خود صحافیوں کی سلامتی‘‘ بتائی گئی ہے۔

کل آٹھ ممالک کی سرحدوں سے جڑے چینی صوبے سنکیانگ میں ترک زبان بولنے والے ایغور نسل کے مسلمانوں کی آبادی آٹھ ملین ہے جو کہ پورے صوبے کی آبادی کا تقریبا نصف حصہ بنتا ہے۔ ایغور باشندوں کو حکومت سے شکایت ہے کہ ان کے ساتھ مذہب کی بنا پر امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔

رپورٹ : میراجمال

ادارت : مقبول ملک