1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی صدر کا دورہ روس

27 مارچ 2007

چین کے صدرHu Jintao تین روزہ دورے پر روس پہنچ چکے ہیں۔اس دورے کی اہمیت خاصی نمایاں ہے۔

https://p.dw.com/p/DYH8
تصویر: AP

چین اور روس کے درمیان گزشتہ سالوں میں دو طرفہ تعلقات میں جو فروغ پیدا ہوا ہے وہ عالمی ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہے۔اپنے مہمان صدر کو خوش آمدیدکہتے ہوئے صدر ولادی میر پو ٹن نے کہا کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ چینی صدرHu Jintao کا یہ دورہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید مستحکم کرے گا۔

اپنے اس دورے کے دوران چینی اور روسی صدور نے ایک بڑے تجارتی میلے کا افتتاح کیا۔اس میلے میں دو سو سے زائد چینی کمپنیوں کے سٹال قائم ہیں جن کا مقصد روس میں نئے کاروباری روابط پیدا کرنے ہیں جن سے دونوں ملکوں کی اقتصادیات میں بہتری آ سکتی ہے۔ نمائش گاہ میں ریشم سے لیکر ہائی ٹیکنالوجی کی مصنوعات رکھی ہیں جو صدر پوٹین کے خیالات کی آئنہ دار ہیں کہ روس نت نئی اختراعات میں دلچسپی رکھتا ہے۔ روس چین سے اس بات کی توقع کرتا ہے کہ ٹیکنالوجی اور صنعتی شعبے میں دونوں ملک مل کر سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔

چین کو اپنی روز افزوں بڑھتی صنعت کے لئے توانائی کے بحران پر قابو پانے کا مسئلہ درپیش ہے اسی تناظر میں گزشتہ روز چینی صدر نے میزبان ملک کے ساتھ ایک انتہائی اہم سمجھوتے پر کہ جو ریل کے ذریعے تیل کی زیادہ سپلائی سے متعلق ہے ، دستخط کئے ۔ اس نئے سمجھوتے کے تحت خام تیل کی یہ سپلائی گیارہ ملین ٹن سے بڑھ کر پندرہ ملین تک پہنچ جائے گی۔اس کے علاوہ روس اپنے ملک کے صنعت اور ٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے میں چین جیسی اصلاحات کا خواہشمند ہے۔

عالمی مبصرین چینی صدر کے موجودہ دورہ روس کو توانائی کی تلاش کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔اور اسی تناظر میںچینی صدر مرکزی روس میں واقع مسلم آبادی والے صوبے تاتارستان بھی گئے جہاں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ روسی فولاد کے حصول کے لئے بھی چین نے روس کو ایک بہت بڑا ٹھیکہ دیا گیا ہے۔

چینی صدر نے روسی وزیر اعظم Mikhail Fradkov اور صدر پوٹن سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا جس میں دوطرفہ تعلقات کے علاوہ اہم عالمی امور پر بھی دونوں ملکوں کا نکتہ نگاہ شامل ہے۔ اس اعلامیے کے مطابق ایران سے متفقہ طور پر اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام پر اقوام متحدہ کی ڈیمانڈ کو تسلیم کرتے ہوئے عالمی برادری کے خدشات کو دور کرے اور ایک قابل قبول حل کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے چھ ملکی بات چیت کی بازگشت بھی اس دورے میں سنائی دی۔