1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی صوبے شن جیانگ میں فسادات

رپورٹ: عابد حسین ، ادارت: کشور مصطفیٰ8 جولائی 2009

شن جیانگ کے صوبے میں فسادات میں ہونے والی ہلاکتوں پر عالمی سطح پر تشویش پائی جاتی ہے۔ چینی صوبے شن جیانگ کے شہر اُرمچی میں صورت حال پر کنٹرول کے لئے سخت سکیورٹی انتظامات کئے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/IiTn
ارمچی میں پیر کو سکیورٹی حکام کی کارروائی کے بعد اُوئیگور آبادی کے جلوس میں ایک خاتون نے پولیس اہلکار کو پکڑ رکھا ہے۔تصویر: AP

چینی صوبے شن جیانگ میں اتوار اور پیر کے اُوئیگور آبادی کے مظاہروں کے بعد گزشتہ روز اُرمچی شہر میں ہان چینیوں نے ایک بڑا جلُوس نکالا۔ ہان چینی لوہے کی سلاخوں اور لکڑی کے ڈنڈوں کے علاوہ دوسرے نقصان پہچانے والے ہتھیاروں سے لیس تھے۔ دوران جلوس وہ اُوئیگور آبادی کے خلاف نعرہ بازی کرتے رہے۔ سکیورٹی حکام نے اُن کو منتشر کرنے کے لئے آنسُو گیس کا بھی استعمال کیا۔ اُوئیگور آبادی کے قریب فریقین کے درمیان پتھراؤ بھی دیکھنے میں آیا مگر سکیورٹی حکام کی مداخلت سے جھگڑا طول نہ پکڑ سکا۔ ہنگاموں کے بعد دوسریے شہروں سے بے شمار ہان چینی ارمچی پہنچ چکے ہیں۔

اِس سے قبل پیر کوچین کے شورش زدہ مغربی صوبے شن جیانگ میں پرتشدد مظاہروں میں کم از کم ایک سو چھپن افراد کی ہلاکت اور کئی سو سے زائد افراد کےزخمی ہونے کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سِن ہوا نے تصدیق کی ہے۔ ارمچی شہر میں کئی سو افراد کو پولیس نے حراست میں بھی لیا ہے۔ شن جیانگ کی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان لِی یی نے سن ہوا کو ایک بیان میں بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک سو انتیس مرد اور ستائیں خواتین شامل ہیں جبکہ ایک ہزار اسی افراد زخمی ہیں۔

Rebiya Kadeer
جلا وطن ایگور سرگرم لیڈر ربیعہ قدیرتصویر: AP

بیجنگ حکومت کا کہنا ہے کہ اوئیگور افراد نے تشدد سے بھرپور رویہ اپنا رکھا ہے۔ جب کہ ایک جلاوطن اوئیگور لیڈر کا کہنا ہے کہ پولیس نے طلبہ کے پر امن جلوس پرفائرنگ کی ہے جس کے باعث اتنی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں ہیں۔ تاہم ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں متضاد خبریں موصول ہو رہی ہیں۔

جرمن شہر میونخ میں قائم عالمی اوئیگورکانگریس کے ترجمان دولکُن عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ارمچی میں نکالے گئے جلوس میں دس ہزار افراد شریک تھے اور پولیس کی پُر امن جلُوس پر اشتعال انگیز فائرنگ سے چھ سو افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔ عالمی اوئیگور کانگریس نے سرکاری خبر رساں ادارے سن ہوا کی رپورٹ کو مسترد کردیا ہے جس میں جلوس کے شرکاء کو مُشتعل اور بِپھرا ہُوا ینایا گیا تھا۔ عالمی اوئیگور کانگریس کے ترجمان دولکُن عیسیٰ نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں چینی سفارتخانوں کے سامنے آئندہ جمعہ کو احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا گیا ہے۔

Neue Proteste im Nordwesten Chinas
ارمچی میں اُوئیگور مسلم خواتین اپنے بچوں سمیت مظاہرے میں شریکتصویر: dpa

تازہ فسادات کا آغاز اتوار سے ہوا تھا۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق احتجاجی چاقووں، اینٹوں اور ڈنڈوں کے ساتھ باہر آئے اور گاڑیوں، دوکانوں کی توڑپھوڑ کے علاوہ سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ جھگڑنا شروع کردیا۔ سرکاری طور پر بتایا گیا کہ دو سو پچاس سے زائد گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اِن کے علاوہ دو سو سے زائد دوکانیں بھی توڑ پھوڑ کا شکار ہوئیں۔ پرتشدد مظاہرے شہر کے مرکزی علاقے میں ہوئے۔

اب ارمچی شہر میں فوج اور پولیس ہر گلی موڑ پر تعینات ہے۔ شہر بھر میں ٹریفک کو مکمل طور پر انتظامیہ نے معطل کر رکھا ہے۔ شہر میں کرفیو کا نفاذ ہے اور کشیدگی کی فضا بدستور قائم ہے۔

اِسی طرح ایک اور اہم شہر کاشغر میں میں بھی چند سو افراد نے جلوس نکالا لیکن اُن کی پولیس سے جھڑپ رپورٹ نہیں کی گئی۔

Uiguren / Xinjiang
مسلح چینی سکیورٹی اہلکار، اُوئیگور لوگوں کے جلُوس کو روکے ہوئے۔تصویر: AP

شن جیانگ کی انتظامیہ جلاوطن اوئیگور لیڈروں کو اِن فسادات کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔ سرکاری خبر رساں ادارے سن ہوا نے امریکہ مقیم خاتون جلا وطن لیڈر ربیعہ قدیر کو اِن ہنگاموں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا ہے۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے نواح میں رہنی والی سرگرم اوئیگور لیڈر ربیعہ قدیر نے چینی الزامات کو مسترد کردیا ہے کہ وہ اِن فسادات میں پسِ پردہ متحرک ہیں۔ باسٹھ سالہ ربیعہ قدیر چین میں مقید رہنے کے بعد،سن 2005 سے امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہی ہیں ہیں۔ اُن کے مطابق انہوں نے اپنے بھائی کو ٹیلی فون کر کے صورت حال کے بارے میں معلُومات لی تھیں اور جس کے بعد ان پر فسادات کوپلان کرنےکا الزام عائد کیا گیا۔

تازہ فسادات کے پس منظر میں کئی واقعیات بتائے جا رہے ہیں جن میں ایک فیکٹری میں دو اوئیگور مزدورں کی ہلاکت اور ایک سو اٹھارہ کے زخمی ہونے کے علاوہ ایک دوسرے صوبے میں دو لڑکیوں کو آبرُو ریزی بھی شامل ہے۔ اِس کے علاوہ گزشتہ ماہ ہان اور اوئیگور آبادیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ بھی کو بھی ان ہنگاموں سے جوڑا جا رہا ہے۔ تب سے مسلسل تناؤ اور کشیدگی کی فضا قائم ہے۔

دوسری جانب عالمی سطح پر ارمچی کے فسادات کو سن اُنیس سو نواسی کے تیاننمین سکوائر کے سانحے کے بعد سب سے بڑا اور خون ریز واقع گردانا جا رہا ہے۔ اِن ہلاکتوں کے باعث عالمی سطح پر تشویش میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کے ترجمان نے کہا ہے کہ جی ایٹ کی میٹنگ کے دوران وزیر اعظم گورڈن براؤن چینی وزیر اعظم کے ساتھ انسانی حقوق کے حوالے سے اِس مسئلے کو اٹھائیں گے۔ اِسی طرح امریکہ کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔وائٹ ہاؤس کے ترجمان رابرٹ گبز کا بیان سامنے آیا ہے، جس میں چینی حکومت کو تحمل سے معاملے کے ساتھ بٹنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

اوئیگور ترک نژاد مسلمان ہیں اور یہ شن جیانگ صوبے میں اچھی خاصی تعداد میں آباد ہیں۔ جب کہ ہان آبادی چالیس فی صد کے قریب ہے۔ اِس علاقے پر چین نے کنٹرول سن انیس سو انچاس میں سنبھالا تھا جب اُس نے مختصر مدت تک قائم رہنے والی مشرقی تُرکستان کی ریاست کو فوج کے ذریعے ختم کردیا تھا۔ اُس کے بعد سے اِس سارے علاقے میں دوسرے حصوں سے ہان آبادی کی مہاجرت شروع ہو گئی۔ اوئیگُور باشندوں کے خیال میں یہ آبادی کاری کا عمل اُن کے ثقافتی ورثے کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ سن اُنیس سو اکیانوے سے مختلف وقفوں سے اِس خطے میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔