1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین ، اولمپک اور تبت

18 مارچ 2008

چینی حکومت اس بات کی تعریف کرتے نہیں تھکتی کہ اس کی زیر انتظام تبت نے خوب اقتصادی ترقی کی ہے ۔ تاہم اس ترقی کا تبت کے عام لوگوں کو برائے نام فائدہ پہنچا ۔ لیکن بیجنگ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔

https://p.dw.com/p/DYOS
تصویر: picture-alliance/ dpa

بیجنگ میں اولمپیائی کھیلوں کی تیاری کےلئے بے پناہ کوششیں جاری ہیں ۔چین بیجنگ کو ایک جدید شہر کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے ۔ وہ تین عشروں کی بے مثال اقتصادی ترقی کی دوڑ کے بعد اب دنیا کے بڑے ملکوں کی برابری میں کھڑا ہو کر اپنے آپ کو منوانا چاہتا ہے ۔

تاہم اب کسی کو بھی شاندار سٹیڈیم ، عظیم اسٹیج ، اور کشادہ سیڑھیوں میں دلچسپی نہیں رہی ۔ تبت کے دارلحکومت لہاسا میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں نے ایک اور ہی چین کی تصویر دنیا کے سامنے پیش کر دی ہے ۔ہر طرح کی مزاحمت کو بری طرح سے کچلنے کی چین خواہ کوئی بھی توجیہ کیوں نہ پیش کرے ، دنیا حیران نظروں سے احتجاجی مظاہروں کو دیکھ رہی ہے۔ جن کے دوران دکانوں اور سرکاری گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی ۔

پر تشدد مظاہرے دراصل حکومت مخالف رائے رکھنے والوں کے تعاقب کی پالیسی کا نتیجہ ہے ۔ چنانچہ پرامن بھکشوں کے خلاف حکام کے ظالمانہ رویے نے لوگوں کے ضبط کا بندھن توڑ دیا ۔ انہوں نے لہاسا میں چین سے آ کر یہاں آباد ہونے والوں پر اپنا سارا غصہ نکالا ۔ اور ان کی دکانوں کو آگ لگا دی ۔چینی حکومت اس بات کی تعریف کرتے نہیں تھکتی ، کہ اس کی زیر نگرانی تبت نے خوب اقتصادی ترقی کی ہے ۔ تاہم اس ترقی کا تبت کے عام لوگوں کو برائے نام فائدہ پہنچا ۔ لیکن بیجنگ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ جب کہ اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے چین سے نہیں کہا تھا کہ وہ یہاں آ کر ان پر حکومت کرے ۔ کسی نے ان سے رائے نہیں لی تھی ۔

تبت میں کیمونسٹ پارٹی کے سیکریٹری کو اِہم ترین حکومتی شخصیت کا درجہ حاصل ہوتا ہے ۔ اس کا تعلق ہمیشہ چین سے رہا ہے ۔خود چین کے موجودہ صدر Hu Jintao بھی تبت کے پارٹی سیکریٹری رہ چکے ہیں ۔ 1989 میں تبت کے آخری بڑے مظاہروں کو بری طرح سے کچلنے کی ذمے داری انہی پر عائد ہوتی ہے ۔ لیکن اب بیجنگ اس ظالمانہ طریقے سے موجودہ مظاہروں کو نہیں کچل سکتا ۔ آج ایسے موبائل ٹیلی فون ہر ایک کے پاس ہیں ، جنکے ذریعے تصویریں اور وڈیوز ایک آن میں دنیا کے کونے کونے میں پہنچائی جا سکتی ہیں۔ تاہم اولمپیائی کھیلوں کا بائیکاٹ کسی طور مناسب نہ ہو گا ۔ خود دلائی لامہ بھی اس کے خلاف ہیں ۔ البتہ ان کھیلوں کو حقوق انسانی پالیسی کے ساتھ نتھی کیا جا سکتا ہے اورحکومت چین پر دباﺅ ڈالنے کے لئے اس حربے سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے ۔