1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں ایک سو بیس ’نقصان دہ‘ گیتوں پر پابندی

عاصمہ علی11 اگست 2015

چینی حکام نے ایک سو بیس ایسے گیتوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے انہیں انٹرنیٹ سے ہٹا دینے کا حکم دے دیا ہے، جنہیں ’جنسی رویوں، تشدد اور قانون شکنی کی ترغیب‘ کا سبب قرار دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GDLg
Symbolbild Musikbranche Deutschland
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Vennenbernd

بیجنگ سے منگل گیارہ اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ایسے جن آن لائن گیتوں پر پابندی لگائی گئی ہے، ان میں ’میں سکول نہیں جانا چاہتا‘ اور ’سب کو مرنا ہی ہے‘ جیسے گیت بھی شامل ہیں۔ چینی وزارت ثقافت کے پیر دس اگست کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ ملک میں آئندہ کسی بھی فرد یا ادارے کو ہرگز یہ اجازت نہیں ہو گی کہ وہ انٹرنیٹ پر ایسے مواد کی موجودگی یا تشہیر کا سبب بنے، جو ’فحاشی کو ہوا دینے اور جرائم اور تشدد کی ترویج کا باعث بنتے ہوں یا پھر سماجی اخلاقیات کو نقصان‘ پہنچاتے ہوں۔

نیوز یجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ یہ ممنوعہ گیت نامعلوم گلوکاروں یا میوزک گروپوں نے گائے تھے لیکن ان سب کے عنوانات کافی چونکا دینے والے تھے، مثلاﹰ ’رقم کے بغیر کوئی دوست نہیں‘ یا پھر ’خودکشی کی ڈائری‘ جیسے گیت۔

چینی وزارت ثقافت کے مطابق ان بلیک لسٹ کیے گئے گیتوں کی مکمل فہرستیں ملک کے تمام انٹرنیٹ مہیا کرنے والے اداروں کو فراہم کر دی گئی ہیں اور انہیں کہہ دیا گیا ہے کہ یہ ’غیر قانونی قرار دی گئی موسیقی جلد از جلد اور بہت تسلی بخش انداز میں انٹرنیٹ سے ہٹا دی جائے‘، ورنہ ایسے تمام اداروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

چین میں حکمران کمیونسٹ پارٹی ایک ایسے وسیع تر سنسرشپ سسٹم کی نگرانی بھی کرتی ہے، جسے عرف عام میں دیوار چین کے نام کی مناسبت سے ’گریٹ فائر وال‘ کہا جاتا ہے اور جس کی مدد سے ایسے ہر قسم کی آن لائن مواد کو روک دیا جاتا ہے جو ’فحاشی کی وجہ بنتا ہو، تشدد پسندی کی ترغیب دیتا ہو یا پھر سیاسی طور پر حساس‘ تصور کیا جاتا ہو۔

چین میں حکام نے بین الاقوامی سطح پر انتہائی معروف سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس، جیسے کہ فیس بک، ٹوئٹر اور یو ٹیوب پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے اور عام چینی صارفین کو ان سائٹس تک کوئی رسائی حاصل نہیں ہے۔

مغربی دنیا کے کئی معروف اخبارات اور نشریاتی اداروں کی طرف سے ماضی میں بیجنگ حکومت پر یہ الزامات بھی لگائے گئے تھے کہ اس نے چین میں ان اداروں کی نیوز ویب سائٹس پر بھی پابندی لگا دی تھی۔ ان اداروں میں نیو یارک ٹائمز اور وال سٹریٹ جرنل جیسے بڑے امریکی اخبارات اور بلومبرگ ٹیلی وژن جیسے نشریاتی ادارے بھی شامل ہیں۔