1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

291209 China Hinrichtung Europäer

29 دسمبر 2009

آج چین میں منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں ایک برطانوی باشندے کو زہریلے انجکشن کے ذریعے موت کی سزا دے دی گئی۔ چین میں کسی یورپی ملک کے باشندے کی سزائے موت پر عملدرآمد کا نصف صدی کے عرصے میں یہ پہلا واقعہ ہے۔

https://p.dw.com/p/LGM5
برطانوی شہری اکمل شیختصویر: AP

دو سال تک انسانی حقوق کی تنظیمیں اور برطانوی حکومت اکمل شیخ کے لئے رحم کی اپیلیں کرتی رہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ لندن کے رہائشی پاکستانی نژاد کو آج منگل کی صبح زہریلا انجکشن لگا کر سزائے موت دے دی گئی۔ 53 سالہ اکمل شیخ کو سن دو ہزار پانچ میں مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس کو اُس کے سامان میں سے چار کلوگرام ہیروئن ملی تھی۔ منشیات کی اسمگلنگ چین میں اُن اڑسٹھ جرائم میں سے ایک ہے، جن کے لئے موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔

حقوقِ انسانی کے لئے سرگرم تنظیمیں یہ دلیل دیتی رہیں کہ اکمل ایک نفسیاتی مریض ہے اور اُس کے سامان میں ہیروئن جرائم پیشہ عناصر نے رکھی تھی۔ اکمل شیخ تاجکستان سے آتا ہوا صوبے سنکیانگ کے دارالحکومت اُرومچی پہنچا تھا، اِس اُمید میں کہ وہ وہاں پوپ موسیقی کے شعبے میں اپنا کیریئر بنا سکے گا۔ تاہم وہ نہیں جانتا تھا کہ اُسے صلاح و مشورہ اور معاونت فراہم کرنے والوں نے اُسے ایک ایسا اٹیچی کیس دے دیا تھا، جس میں ہیروئن رکھی تھی۔ اِس الزام میں اُسے دو ہزار آٹھ میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

چینی ججوں کا کہنا تھا، اِس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ اکمل شیخ ایک نفسیاتی مریض ہے۔ چینی وَزارتِ خارجہ کی ترجمان ژِیانگ یُو کا کہنا تھا کہ اِس برطانوی باشندے کو ایک سنگین جرم کے لئے سزا دی گئی ہے اور پوری دُنیا میں اِس طرح کے جرم کیلئے اتنی ہی سخت سزا دی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ اِس مقدمے کی پوری کارروائی کے دوران برطانیہ کو ہر مرحلے پر پوری طرح سے باخبر رکھا گیا اور یوں سزائے موت پر عمدرآمد بالکل درست طریقے سے عمل میں آیا ہے۔

تاہم برطانوی انجمن برائے نفسیاتی صحت کی ترجمان ماریوری وَالیس ایک مختلف نقطہء نظر رکھتی ہیں:''ہم سمجھتے ہیں کہ اکمل شیخ کا مکمل طبی معائنہ نہ تو چینی ڈاکٹروں نے کیا اور نہ ہی برطانیہ سے بھیجے گئے معالجوں نے۔ ہم نے نفسیاتی تجزیے پر مبنی ایک باقاعدہ رپورٹ طلب کی تھی۔‘‘

Hinrichtung des Briten in China
اکمل شیخ کے کزن سہیل شیخ اور ناصر شیخ پیر اٹھائیس دسمبر کو بیجنگ پہنچنے پر صحافیوں کے ساتھ بات کر ہے ہیں۔تصویر: AP

سزائے موت پر عملدرآمد کو روکنے کی ایک آخری کوشش کے طور پر رواں ہفتے کے اوائل میں اکمل شیخ کے دو قریبی عزیز چین گئے۔ ایک کزن نے کہا:’’ہم معالجین تو نہیں ہیں لیکن ہمیں وہ نفسیاتی اعتبار سے منتشر نظر آیا۔ ہمیں ابھی بھی کچھ اُمید ہے۔‘‘

چین گئے اکمل شیخ کے دونوں کزنز نے چینی پارٹی قائد اور صدر ہُو جِن تاؤ کے نام ایک مراسلے میں رحم کی اپیل کی تھی۔ اِس سے پہلے ہی بیجنگ حکومت برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن کی جانب سے کی گئی رحم کی اپیل مسترد کر چکی تھی۔

موت کی سزا پر عملدرآمد کے روز برطانوی وزارتِ خارجہ کے اسٹیٹ سیکریٹری ایوان لیوئس نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا:’’شیخ ایک نفسیاتی مریض ہے اور اُسے سزائے موت دینا ایک انتہائی غیر مناسب بات ہے۔ ہم نے شیخ کے معاملے پر چینی حکام کے ساتھ وَزارتی سطح پر ستائیس مرتبہ مذاکرات کئے۔ چین میں شیخ کی نفسیاتی حالت کے بارے میں کوئی طبی تجزیہ ہی نہیں کروایا گیا۔ یہ ناقابلِ قبول ہے۔‘‘

اِسی دوران چینی ذرائع ابلاغ نے مغربی دُنیا کو خبردار کیا ہے کہ وہ اِس کیس سے ناجائز سیاسی فائدے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے۔ چین میں باقی پوری دُنیا کے مقابلے میں موت کی سب سے زیادہ سزائیں دی جاتی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق دو ہزار آٹھ میں ایک ہزار سات سو افراد کی موت کی سزاؤں پر عملدرآمد کیا گیا۔

رپورٹ: آسٹرِیڈ فرائی آئیزن (شنگھائی) / امجد علی

ادارت: گوہر نذیر