1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں زلزلے کے ایک سال بعد، رنج بھی امید بھی

رپورٹ: عروج رضا صیامی، ادارت: مقبول ملک11 مئی 2009

چین میں گذشتہ برس 11 مئی کے روز آنے والے تباہ کن زلزلے کو پیر کے روز ٹھیک ایک سال ہو گیا لیکن اس آفت سے بری طرح متاثر ہونے والے صوبے سیچوآن میں عام شہریوں کو آج بھی شدید رنج اور امید کے ملے جلے جذبات کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/Ho7s
زلزلے میں قریب 87 ہزار انسان ہلاک ہو ئے تھےتصویر: Ruth Kirchner

گونگ گوئی لن ایک ایسا چینی نوجوان ہے جو گذشتہ برس سیچوآن میں ریکٹر اسکیل پر آٹھ ڈگری کی شدت سے آنے والی ہلاکت خیز آفت کے نتیجے میں اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہو گیا تھا۔ لیکن اب وہ جسمانی طور پر معذور کھلاڑیوں کے ٹینس مقابلوں میں حصہ لینا چاہتا ہے۔

Zhuang Yong Feng who lost her husband in Beichuan
زلزلے سے متاثرہ افراد کی دوبارہ مکمل آباد کاری کے لئے بہت طویل وقت درکار ہوگاتصویر: Ruth Kirchner


اس تباہ کن زلزلے میں زندہ بچ رہنے والے دیگر بہت سے شہریوں کی طرح گونگ کی شخصیت میں بھی اپنی ذاتی زندگی میں آگے بڑھنےکی خواہش واپس لوٹ رہی ہے۔ وہ اپنی مصنوعی ٹانگیں دکھاتے ہوے کہتا ہے کہ اسے ٹینس کھیلنا بہت پسند ہے لیکن وہ باسکٹ بال بھی کھیلتا ہے اور اسے موٹر سائیکل چلانا بھی بہت اچھا لگتا ہے۔

چین کے صوبے سیچوآن میں آنے والے زلزلے نے جس وسیع تر علاقے کو متاثر کیا تھا اس کا رقبہ جنوبی کوریا کے مجموعی رقبے کے برابر بنتا ہے اور اس زلزلے میں قریب 87 ہزار انسان ہلاک ہو ئے تھے یا زلزلے کی تباہی کے نتیجے میں وہ اس طرح لا پتہ ہو گئے کہ آج تک ان کا کوئی سراغ ہی نہیں مل سکا۔ یہ زلزلہ چین میں گذشتہ تین عشروں کے دوران آنے والی سب سے تباہ کن قدرتی آفت ثابت ہوا تھا۔

سیچوآن میں بیچو آن نامی شہر جہاں کبھی ہر طرف زندگی کی گہما گہمی دیکھنے میں آتی تھی، اس زلزلے سے اتنا متاثر ہوا تھا کہ صرف اس ایک شہر میں 20 ہزار انسان مارے گئے تھے۔ یہ شہر اور اس سے ملحقہ علاقہ چینی حکام نے ابھی تک اپنی نگرانی میں لے رکھا ہے تاہم وہ شہری جو اس علاقے میں واپس لوٹنا چاہتے ہیں انہیں عام طور پر اس کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

ایک چینی کسان لن زے ماؤ، جن کی عمر اس وقت 50 برس ہے، اس زلزلے کے نتیجے میں اپنے کئی اہل خانہ سے محروم ہو گئے تھے۔ وہ اپنی بیوی اور بیٹے کو یادکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دیکھا جائے تو اب انہیں اپنی زندگی معمول کے مطابق گذارنا شروع کرتو دینا چاہیے مگر ان کا اپنے اہل خانہ کے بغیر زندہ رہنے کو دل ابھی بھی نہیں چاہتا۔

چین میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں کے بے گھر ہوجانے والے شہریوں کو 10 مئی اتوار کے دن سے چار روز کے لئے یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے ہلاک ہوجانے والے اہل خانہ اور احباب کی یاد میں روایتی تعزیتی تقریبات کے لئے متاثرہ علاقوں میں جا سکتے ہیں۔ اس دوران بہت سے شہری ایسے مقامات پر گئےجہاں ان کے خیال میں ان کے عزیزو اقارب مارے گئے تھے۔ ایسے کئی خطوں میں بے شمار تباہ شدہ عمارتیں ایسی ہیں جو کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتی ہیں۔

Erdbeben in Sichuan
تصویر: DW


انہی تقریبات کے دوران ایک سابقہ استانی نے اپنے آنجہانی خاوند کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ جس جگہ کھڑی ہے وہیں پر اس کا خاوند دفن ہے۔ جنوب مغربی چین میں اس زلزلہ کے دوران بیچوآن میں تباہی اس حد تک ہوئی تھی کہ حکومت اس شہر کو دوبارہ تعمیر کرنے کی بجائے اسے اب زلزلے کی تباہ کاریوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

اس زلزلے سے سیچوآن میں اتنے زیادہ شہری زخمی اور پھر اپاہج ہو گئے تھے کہ چین ہی کے ایک خصوصی علاقے ہانگ کانگ کی مہیا کردہ مالی امداد سے صوبائی دارالحکومت کے ایک ہسپتال میں ایک ایسا منصوبہ بھی شروع کیا گیا تھا جس کے تحت وہاں معذور شہریوں کی فزیو تھیراپی کی جاتی ہے اور انہیں مصنوعی اعضاء بھی لگائے جاتے ہیں۔

اس ہسپتال کے نائب سربراہ کہتے ہیں کہ شروع شروع میں جب ضرورت مند مریض وہاں آتے تھے تو وہ زیادہ تر نامید ہی ہوتے تھے مگر اس طبی ادارے میں ملنے والی علاج کی جامع اور جدید سہولتوں کے نتیجے میں ایسے اکثر لوگ اب قدرے خوش امید ہیں، وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں اور ان میں سے بہت سے تو اب اس سوچ کے حامل ہیں کہ حالات کیسے بھی ہوں، زندگی سے زیادہ قیمتی شے کوئی اور نہیں ہوتی۔

انٹرنیشنل ریڈ کراس کے ایک ترجمان فرانسس مارکوس کا کہنا ہے کہ زلزلے سے متاثرہ افراد کی دوبارہ مکمل آباد کاری کے لئے بہت طویل وقت درکار ہوگا اور اس کے لئے ریڈ کراس بھی اپنے طور پر کوششیں کرے گی لیکن سب سے اہم اور فیصلہ کن کردار چینی حکومت کا ہوگا۔