1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چیک جمہوریہ میں سیاسی عدم استحکام

20 اپریل 2009

یورپی یونین کا موجودہ صدر ملک چیک جمہوریہ سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ ملک کے صدر واسلاو کلاؤس نے سابق وزیر اعظم میریک ٹوپولانک کی حکومت کے خاتمے کے بعد عبوری طور پر ژان فشر کو وزیر اعظم نامزد کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/HavT
سابق وزیر اعظم میریک ٹوپولانکتصویر: AP

چیک جمہوریہ میں سابق وزیر اعظم میریک ٹوپولانک کی حکومت کے خاتمے کے بعد سیاسی عدم استحکام ابھی تک جاری ہے۔ ملک میں کمیونزم کے خاتمے کے بیس سال بعد اب یہ امکان نظر آنے لگا ہے کہ ملک کی پانچویں بڑی سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی آئندہ انتخابات میں قدرے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔

عبوری وزیراعظم فشر پیشے کے اعتبار سے ایک ٹیکنوکریٹ ہیں۔ ٹوپولانک کی حکومت حال ہی میں پارلیمان میں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد زوال کا شکارہوگئی تھی۔ چیک جمہوریہ کے لیے اس حکومت کا خاتمہ شرمندگی کا باعث اس لئے بھی تھا کہ یہ پہلا موقع تھا کہ یورپی یونین کے صدر ملک کے طور پر کسی ریاست میں حکومت یوں ناکام ہو گئی ہو۔ تاہم چیک جمہوریہ کو اس کے علاوہ بھی دو بڑے امتحانات کا سامنا ہے۔

یورپی یونین میں اصلاحات کے لزبن معاہدے کو اس ملک میں ناپسند کیا جاتا ہے۔ ٹوپولانک کی حکومت کے خاتمے کی سب سے بڑی وجہ لزبن معاہدے کی پارلیمان سے توثیق کی کوششیں ہی بنیں۔ اس معاہدے کے نفاذ کے لئے یونین کے رکن تمام ملکوں کی طرف سے اس کی توثیق لازمی تھی تاہم اگر خود یونین کا صدر ملک ہی اس کی توثیق نہ کرپائے تو یقیناً یہ ایک پریشان کن امر ہے۔

Tschechien Jan Fischer neuer Ministerpräsident und Präsident Vaclav Klaus
صدر واسلاو کلاؤس نےعبوری طور پر ژان فشر کو وزیر اعظم نامزد کیا ہےتصویر: AP

دوسرا بڑا مسئلہ لزبن معاہدے ہی سے منسلک ہے۔ ٹوپولانک کی حکومت گرنے کے بعد اکتوبر میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان تو کردیا گیا ہے تاہم یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ آیا ان انتخابات کے بعد قدامت پسند اور سوشل ڈیموکریٹس مل کر ایک ایسا حکومتی اتحاد قائم کرسکیں گے جو پراگ کی ملکی پارلیمان سے لزبن معاہدے کو منظور کرواسکے۔

صدر کلاؤس لزبن معاہدے کے پہلے ہی خلاف ہیں اور ان کا موقف ہے کہ یہ معاہدہ یورپی یونین میں شامل چھوٹے ملکوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ دوسری جانب ملک میں کمیونسٹ نظام حکومت کے خاتمے کے بیس برس بعد ملکی پارلیمان میں تیسری سب سے بڑی جماعت کمیونسٹ پارٹی بھی اس پوزیشن میں نظر آرہی ہے کہ وہ اکتوبر کے انتخابات میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنا سکے۔ ایسا کرتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی معاہدہ لزبن سے متعلق قومی اختلاف رائے کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔

سابقہ چیکو سلوواکیہ میں اشتراکی نظام حکومت کے خاتمے کے بعد سے کمیونزم چیک جمہوریہ میں شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس حد تک کہ آج اس ملک میں ’مطلق العنان حکومت یا کمیونزم کا میوزیم‘ بھی قائم ہو چکا ہے۔ سابق وزیر اعظم ٹوپولانک اس میوزیم کے قیام کو اپنی حکومت کا سب سے اہم کارنامہ قرار دیتے ہیں۔

ٹوپولانک کا کہنا ہے کہ اگر وہ ان پانچ چیزوں کا نام گنوائیں جو ان کی حکومت کی اہم ترین کامیابیاں تھیں، تو ان میں سے ایک مطلق العنان حکومتوں کے بارے میں ان کی حکومت کا قائم کردہ انسٹیٹیوٹ بھی ہے اور یہ ان کے نزدیک کوئی عام بات نہیں ہے۔

اس صورت حال میں چیک جمہوریہ میں اسی سال اکتوبر کے مجوزہ عام انتخابات کے بعد بھی سیاسی عدم استحکام برقرار رہ سکتا ہے۔