1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈرائیونگ کے دوران بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے، رخسار اعظمی

عدنان اسحاق8 نومبر 2015

قدامت پسند افغان معاشرے میں خواتین کے ڈرائیونگ کرنے کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ رخسار اعظمی کابل میں اپنی کار چلاتی ہیں لیکن انہیں اس دوران بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1H1qr
تصویر: DW/Abu Jamal

23 سالہ رخسار اعظمی پیشےسے صحافی ہیں۔ انہیں ہر روز انہیں اپنے دفتر جانے کے لیے ٹیکسی کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ تاہم اس صورت حال سے بچنے کے لیے انہوں نے ڈرائیونگ سیکھی اور اب وہ اپنی کار میں ہی کام پر جاتی ہیں۔ لیکن اس سفر کے دوران انہیں مردوں کی جانب سے کیا کچھ برداشت نہیں کرنا پڑتا۔ وہ بتاتی ہیں کہ راستے میں ان پر آوازیں کسی جاتی ہیں، ان کی تضحیک کی جاتی ہے اور یہاں تک کہ انہیں قتل کی دھمکیاں تک دی جا چکی ہیں۔ رخسار کے بقول’’ خواتین کو گاڑی چلاتے ہوئے دیکھنا بہت سے مردوں کے لیے یہ بالکل نئی چیز ہے۔ یہ لوگ ڈراتے دھمکاتے ہیں اور کبھی کبھار تو جان بوجھ کر حادثے بھی کرتے ہیں‘‘۔

ایک سال سے زائد گزر چکا ہے اور وہ اس تمام صورت حال کو برداشت کر رہی ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ رویہ انہیں خوف ذدہ نہیں کر سکا ہے۔ رخسار بتاتی ہیں کہ ایک مرتبہ وہ اپنی ٹویوٹا کرولا میں سفر کر رہی تھیں کہ ایک جیپ میں سوار چار سے پانچ افراد نے ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ اس صورت حال نے انہیں پریشان تو ضرور کیا لیکن وہ گاڑی چلاتی رہیں۔ ’’میری پریشانی اس وقت اور بڑھ گئی جب یہ جیپ مسلسل میرے پیچھے لگی رہی۔کابل کے ایک سنسان علاقے میں ان افراد نے مجھے روک لیا۔ تاہم جیسے ہی یہ لوگ اپنی جیپ سے اترے میں نے موقع غنیمت جان کر اپنی گاڑی بھگا لی‘‘۔

Stau in Kabul
تصویر: AP

رخسار کے بقول افغانستان میں ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ 1990ء کی دہائی تک اس ملک میں خواتین ڈرائیورز عام تھیں تاہم جب کمیونسٹ حکومت ختم ہوئی اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہوا تو اسٹیئرنگ کے پیچھے بیٹھی خواتین کی تعداد بھی کم ہوتی گئی۔ اس کے بعد 1996ء میں طالبان نے حکومت میں آتے ہی خواتین کی ڈرائیونگ پر مکمل پابندی عائد کر دی۔2001ء میں امریکا اور اتحادیوں کی جانب سے طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی صورت حال تبدیل نہیں ہوئی۔ صنفی مساوات افغان آئین میں شامل ہے۔ اب افغانستان میں لڑکیاں اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کا رخ کرتی ہیں لیکن صنف نازک کے کار چلانے کو ابھی بھی متنازعہ، اشتعال انگیز اور یہاں تک کے غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کابل اور دیگر بڑے شہروں کی خواتین میں گاڑی چلانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ کابل کے محکمہ ٹریفک کے مطابق صرف افغان دارالحکومت میں ہر سال تقریباً ایک ہزار خواتین ڈرائیونگ اسکولز کا رخ کر رہی ہیں۔