1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈربن کانفرنس کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کا خصوصی تبصرہ

12 دسمبر 2011

اتوار کو ڈربن میں ماحول سے متعلق اقوام متحدہ کی سترہویں کانفرنس ایک مبہم معاہدے پر ختم ہوئی۔ ڈوئچے ویلے جنوبی ایشیا کے سربراہ گراہیم لوکاس کے بقول اس کے نتیجے کو کسی بھی طور سود مند قرار نہیں دیا جا سکتا۔

https://p.dw.com/p/13RCM

لوکاس کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہو گی کہ مذاکرات کی کامیابی کا دعوٰی ایک شرمناک جھوٹ ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور ابھی تک ان کی روک تھام کے کسی معاہدے پر پہنچنے کے بارے میں سیاسی عزم موجود نہیں ہے۔ بڑے صنعتی ممالک، ابھرتی ہوئی معیشتیں اور بڑی مقدار میں سبز مکانی گیسیں فضا میں چھوڑنے والے ممالک یعنی چین، امریکہ، روس، بھارت اور جرمنی ماحول کو بچانے کے لیے اپنی اقتصادی نمو کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اور ڈربن کانفرنس میں یہی افسوسناک بات سامنے آئی ہے۔

ان ملکوں کو اس حوالے سے جو خدشات لاحق ہیں، ان میں عوامی دباؤ، عنقریب ہونے والے انتخابات اور اقتصادی نمو میں کمی کے باعث عوامی بے چینی شامل ہیں۔ یہ عوامل چاہے کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں، لیکن بات یہ ہے کہ انسانیت کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے، اور یہ چیز ان سیاسی رہنماؤں کے مستقبل سے کہیں بالاتر ہے۔

Global Media Forum 2011
ڈوئچے ویلے کے شعبہ جنوبی ایشیا کے سربراہ گراہیم لوکاس کے بقول ڈربن مذاکرات کے نتائج کو کسی طور سودمند قرار نہیں دیا جا سکتاتصویر: GMF

گراہیم لوکاس کے بقول سائنس دان کئی برسوں سے ہمیں خبردار کر رہے ہیں کہ ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج سے اوزون کی سطح تباہ ہو رہی ہے اور عالمی درجہء حرارت بڑھ رہا ہے۔ اگر درجہء حرارت میں چھ ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ اضافے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ہماری اس زمین کے بہت سے حصے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے، پینے کے پانی کی مقدار کم ہو جائے گی، سمندروں کی سطح میں اضافہ ہو گا، ساحلی علاقوں میں زمین کھاری پانی سے آلودہ ہو جائے گی، ساحلی پٹیاں سکڑ جائیں گی اور لوگوں کے لیے دستیاب خشکی کم ہو جائے گی۔ اس کے نتیجے میں آبادیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع ہو جائے گی۔ بنگلہ دیش جیسے ملک میں دو کروڑ افراد اس خطرے کا شکار ہیں۔ یہ لوگ کہاں جائیں گے؟ اس کے نتائج کافی بھیانک نکل سکتے ہیں کیونکہ موجودہ صدی کے اواخر تک دنیا کی آبادی بڑھ کر نو ارب کے قریب پہنچنے کی توقع ہے۔

ڈوئچے ویلے شعبہء جنوبی ایشیا کے سربراہ لوکاس کہتے ہیں کہ بھارت اور چین میں یہ نقطہ نظر عام ہے کہ یہ مسئلہ حل کرنا مغربی ملکوں کا کام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک صنعتی دور کے آغاز سے ہی فضا کو گندگی کا ڈھیر سمجھ کر استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم یہ سوچ مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ اکیسویں صدی کی دو ابھرتی ہوئی بڑی طاقتیں یعنی بھارت اور چین خود بھی ماحول کی آلودگی میں بڑا حصہ ڈال رہی ہیں۔ آئندہ دہائیوں میں ان کی جانب سے فضا میں چھوڑی جانے والی کاربن گیسوں کی مقدار پرانے صنعتی ملکوں سے بڑھ جائے گی۔ ابھی ان کے نزدیک معاشی نمو نئی ماحول دوست ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

گراہیم لوکاس کے نزدیک تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ انسانیت کے پاس اس حوالے سے زیادہ وقت نہیں بچا۔ اسے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ مسئلے کی ہنگامی نوعیت سے انکار گمراہ کن اور پاگل پن کے مترادف ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ نئی دہلی اور بیجنگ اٹھ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔

Fabrikschornsteine
نئی دہلی اور بیجنگ کو بھی ماحولیاتی آلودگی کے خلاف اقدامات کرنے ہوں گےتصویر: picture-alliance / chromorange

مگر مغرب کو بھی اس میں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کی طرف سے سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کرنے کی کسی قانونی ذمہ داری سے صرفِ نظر انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔ اسی طرح مغرب کی جانب سے بھی مزید سخت اقدامات اٹھانے سے انکار بھی غیر ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔

برلن کی جانب سے جوہری توانائی کے استعمال کو رفتہ رفتہ ختم کرنے کا فیصلہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیسوں میں کمی کی بجائے ان میں اضافے کا باعث بنے گا۔

جرمنی نے ماحول کو بچانے کے لیے حالیہ برسوں میں بعض اقدامات بھی اٹھائے ہیں جن میں ایندھن کے استعمال میں کمی لانے والی ٹیکنالوجیز کی تیاری، متبادل ذرائع توانائی کا فروغ اور کم توانائی استعمال کرنے والے گھروں کی تعمیر شامل ہیں۔

Korallenriff
عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے سمندروں کی سطح میں اضافے اور کئی علاقوں کے غرق ہونے کا خدشہ ہےتصویر: AP

گراہیم لوکاس کے بقول بعض ماہرین یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ڈربن کانفرنس میں کامیابی حاصل ہوئی ہے مگر یہ اپنی ہی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ کیوٹو پروٹوکول کو توسیع دی گئی یا 2020ء میں مزید مذاکرات کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے تاہم اصل بات یہ ہے کہ ان سب کے باوجود درجہء حرارت میں اضافے کا عمل روکنے کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ ایسا نہ ہو کہ بہت تاخیر ہو جائے اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کوستی رہیں کہ ہم نے ماحول کے ساتھ کیا کر دیا ہے۔

تبصرہ: گراہیم لوکاس

ترجمہ: حماد کیانی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں