1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈسکہ کا خزیمہ نصیر: بہتر یورپی زندگی کے خواب کی ڈراؤنی تعبیر

مقبول ملک
20 اکتوبر 2016

نوجوان پاکستانی تارک وطن خزیمہ نصیر کے لیے بظاہر وہی طویل زندگی کم پڑ گئی ہے، جس میں بہتری کے خواب لیے وہ گزشتہ برس بطور مہاجر جرمنی آیا تھا۔ اب کینسر کے مریض خزیمہ کو عنقریب ہی جرمنی سے واپس پاکستان پہنچا دیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2RUPU
Flüchtling Khuzaima Naseer
پچیس سالہ خزیمہ نصیر کی کیموتھراپی ڈاکٹروں نے ستمبر کے آخر میں بند کر دی تھیتصویر: DW/M. Malik

خزیمہ نصیر کی عمر اس وقت 25 برس ہے اور آبائی شہر پاکستانی صوبہ پنجاب میں سیالکوٹ کے قریب ڈسکہ کا شہر، جہاں اس کی اپنی ریڈی میڈ ملبوسات کی ایک دکان تھی۔ چھ فٹ سے زائد قد کے خزیمہ کی ابھی تک نہ تو شادی ہوئی ہے اور نہ ہی منگنی۔ وہ گزشتہ تین ماہ سے بھی زائد عرصے سے جرمنی کے شہر کولون کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے، جہاں ماہر ڈاکٹر اور ہسپتال کا عملہ اب اس کا علاج عملی طور پر بند کر چکے ہیں اور ان دنوں صرف اس کی طبی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔

اچانک ترک وطن کا فیصلہ

خزیمہ نصیر نے ہسپتال میں اپنے کمرے میں ہونے والی ایک تفصیلی ملاقات میں ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پچھلے سال گرمیوں میں ایک جمعے کے روز، جب اس کی دکان بند تھی اور چھٹی کا دن تھا، تو جمعے کی نماز کے بعد اس کے دو دوست اس کے گھر اسے ملنے آئے تھے۔ پھر اسے پوچھا گیا کہ یورپ چلو گے؟  خزیمہ کے مطابق اس کا جواب یہ تھا، ’’ہاں جایا جا سکتا ہے۔‘‘

پھر اس نوجوان نے، جس کا پاسپورٹ بنا ہوا تھا، گھر سے 35 ہزار روپے لیے، ان میں سے کچھ رقم کے امریکی ڈالر خریدے گئے اور چند ہی روز میں کراچی کے راستے خزیمہ ایران کی طرف سمندری سفر پر تھا۔

پیدائشی طور پر ڈسکہ کے رہنے والے اس پچیس سالہ نوجوان کو ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کئی بار وقفہ بھی کرنا پڑا تاہم خزیمہ کا کہنا تھا کہ اس کی زندگی کی کہانی ان ہزارہا پاکستانی نوجوانوں کو بتائی جانا چاہیے جو اپنے لیے یورپ میں بہتر معاشی اور سماجی مستقبل کےخواب لیے ہوئے ہر قیمت پر بیرونی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔

ایرانی ڈاکوؤں کا شکار

خزیمہ ڈسکہ کے رہنے والے اپنے دو دوستوں اور کئی دیگر پاکستانیوں کے ہمراہ جب ایک کشتی کے ذریعے ایران کے ایک بندرگاہی شہر پہنچا تو وہاں یورپ کی طرف سفر کے دوران ایک پہاڑی علاقے میں چند ڈاکوؤں نے اس گروپ کو لوٹنے کی کوشش کی۔ اس دوران خزیمہ کی ایک ٹانگ میں ایک گولی بھی لگی اور ڈاکوؤں سے بچنے کی کوشش کی دوران بھاگتے بھاگتے اس کے دونوں دوستوں کو ایرانی حکام نے پکڑ لیا۔ ’مجھے زخمی ہونے کی وجہ سے ایک ہسپتال پہنچا دیا گیا جب کہ میرے دونوں دوستوں کو ایرانی حکام نے ملک بدر کر کے واپس پاکستان بھجوا دیا۔‘‘

Deutschland Flüchtlinge in Deggendorf
خزیمہ نصیر لاکھوں دیگر مہاجرین کی طرح گزشتہ برس جرمنی آیا تھاتصویر: Getty Images/J. Koch

خزیمہ نے بتایا کہ ایرانی ہسپتال میں چند ہفتے علاج کے بعد جب اس کی حالت تھوڑی سی بہتر ہوئی تو ڈاکٹروں نے اسے یہ کہہ کر چھٹی دے دی: ’’اب تم آزاد ہو، جہاں چاہو جا سکتے ہو۔‘‘ اس پر خزیمہ نے واپس پاکستان جانے کے بجائے اپنا سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور ایک ایجنٹ کے ذریعے، جس کے ساتھ غیر قانونی تارکین وطن کے اس گروپ کے رابطے پہلے ہی سے تھے، ایران سے پہلے ترکی اور پھر ایک چھوٹی سی کشتی کے ذریعے بحیرہ ایجیئن کو عبور کر کے یونان پہنچ گیا۔

بالآخر جرمنی 

یونان سے جولائی 2015ء میں خزیمہ اور کئی دوسرے تارکین وطن نے اپنا پیدل سفر جاری رکھا اور پھر مقدونیہ، سربیا اور ہنگری سے ہوتا ہوا آٹھ اگست 2015ء کو یہ پاکستانی شہری اس وقت بلا روک ٹوک مہاجرین سے بھری ایک ریل گاڑی میں سوار ہو کر جرمنی پہنچ گیا، جب یورپ میں مہاجرین کا بحران اپنے عروج پر تھا اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مشرقی یورپی ریاستوں کی قومی سرحدوں پر پھنسے ان لاکھوں مہاجرین کے لیے جرمن سرحدیں کھول دی تھیں۔

جرمنی آنے کے بعد خزیمہ نصیر نے سیاسی پناہ کی درخواست دے دی، جس پر کوئی فیصلہ ابھی نہیں ہوا تاہم پچھلے برس دسمبر میں اسے شہر ڈسلڈورف میں ایک باقاعدہ رہائش مہیا کر دی گئی تھی اور اس نے مہاجرین کا ہنگامی کیمپ چھوڑ دیا تھا۔

اپنی بیماری کی وجہ سے بہت دھیمی آواز میں بات چیت کرنے والے خزیمہ کے لیے یورپ، خاص کر جرمنی میں رہتے ہوئے اپنے بہتر زندگی کے خوابوں کی تعبیر کا حصول اس وقت خطرے میں پڑ گیا، جب جرمنی آنے کے صرف 11 ماہ بعد اس سال جولائی میں اس کی ایک ٹانگ بہت زیادہ سوج گئی تھی۔ یہ اس کی وہی ٹانگ تھی، جس پر ایران میں اسے گولی لگی تھی۔ پھر جب اسے شہر زولِنگن کے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا تو تفصیلی معائنے پر بتایا چلا کہ وہ سرطان کا مریض ہے۔

سرطان کا انکشاف

زولِنگن کے ہسپتال میں ایک ماہ تک زیر علاج رہنے کے بعد اسے جولائی میں کولون کے ایک مرکزی ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اس ہسپتال میں ڈاکٹروں کو پتہ یہ چلا کہ خزیمہ نہ صرف ہڈیوں کے سرطان میں مبتلا ہے بلکہ اس کی یہ بیماری تب تک بہت خطرناک حد تک پھیل چکی تھی۔ پھر سرطان کے علاج کے لیے اس کی کئی طرح کی کیموتھراپی بھی کی گئی لیکن کینسر بڑھتا گیا اور آخر کار ڈاکٹروں کو اسے بتانا پڑا کہ وہ اس کا مزید علاج نہیں کر سکتے تھے۔

اب خزیمہ جسمانی طور پر انتہائی کمزور اور اس کا وزن بہت کم ہو چکا ہے۔ جسمانی مدافعتی نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے لیکن وہ ابھی تک بڑی بہادری سے اپنی بیماری کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اسے کولون کے ہسپتال میں اب قریب ساڑھے تین ماہ ہونے کو ہیں۔

Flüchtling Khuzaima Naseer
بیماری سے پہلے خزیمہ کی جرمنی ہی میں لی گئی ایک تصویرتصویر: K. Naseer

’اب وقت زیادہ نہیں بچا‘

خزیمہ نصیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈاکٹروں کے مطابق اس کے پاس اب زندگی کے شاید چند ہفتے یا زیادہ سے زیادہ چند ماہ ہی بچے ہیں۔ ’’میں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ اگر ہو سکے تو مجھے واپس پاکستان بھجوا دیا جائے۔ ہسپتال کی انتظامیہ کوشش کر رہی ہے۔ پہلے میری والدہ کو یہاں بلانے کے لیے ضروری کارروائی بھی شروع کی گئی تھی۔ لیکن پاکستان سے انہیں جرمنی کا ویزا حاصل کرنے میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں اور میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔‘‘

اب کولون کا یہ ہسپتال بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے ساتھ مل کر ان کوششوں میں ہے کہ خزیمہ کو ایک ڈاکٹر کے ہمراہ پاکستان پہنچا کر اس کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا جائے اور وہاں اس کی لازمی طبی دیکھ بھال بھی ہوتی رہے۔

’سہانے خوابوں کی تکلیف دہ تعبیریں‘

کولون کے اس ہسپتال کے ذرائع کے مطابق خزیمہ کو عنقریب ہی ایک ڈاکٹر کے ہمراہ پاکستان بھیجنے کی تیاریاں جاری ہیں لیکن مریض کی بیماری کے آخری مراحل میں ہونے اور غیر قانونی ترک وطن کی وجہ سے بہت سی قانونی پیچیدگیاں اور انتظامی مسائل بھی ہیں۔ ’’پھر بھی ہمیں یقین ہے کہ اگلے چند روز میں بھی اس کے سفر کے قابل رہنے کی صورت میں خزیمہ کو پاکستان بھیجا جا سکے گا۔‘‘

ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنی گفتگو خزیمہ نے اس طرح ختم کی، ’’جوانی میں انسان اپنے لیے بڑی طویل عمر کی امید کرتے ہوئے کئی خواب دیکھتا ہے۔ اپنے ملک میں یا ملک سے باہر بہتر اور خوشحال زندگی کے خواب۔ لیکن کبھی کبھی زندگی اتنی کم پڑ جاتی ہے کہ خواب اپنی تعبیروں سمیت راستے ہی میں کہیں گم ہو جاتے ہیں یا پھر ان خوابوں کی تعبیریں بڑی خوفناک اور تکلیف دہ ہوتی ہیں۔‘‘