ڈنمارک میں پناہ گزینوں پر ’سیاسی پناہ ‘ اسپرے کا استعمال
29 ستمبر 2016ہیڈرسلیوو کے جنوبی شہر میں گزشتہ ہفتے کے روز انتہائی دائیں بازو کی جماعت ’دا ڈینز‘ کی جانب سے عوام کو بالوں پر کیے جانے والے اسپرے کی ایک سو سینتیس بوتلیں دی گئی تھیں۔ ان بوتلوں پر لیبل تبدیل کر دیے گئے تھے۔ ’دا ڈینز‘ نامی اس جماعت کو پارلیمان میں کوئی نمائندگی حاصل نہیں ہے۔ ايک نازی گروپ کے سابقہ رکن اور پارٹی کے سربراہ ڈینیل کارلسن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’سیاسی پناہ اسپرے اس بات کے خلاف ٹھوس ردِ عمل ہے کہ اب زیادہ ڈینش شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔‘‘
کارلسن نے مزید کہا کہ بعض ڈینش لڑکیاں اندھیرا ہونے کے بعد باہر نکلنے کی ہمت نہیں کرتیں کیونکہ اب شہر میں پناہ گزین ہیں۔ کارلسن کے مطابق اس مسئلے کا حل صرف اسی صورت ممکن ہے اگر مغربی ممالک سے باہر کے افراد کی مغرب ميں ہجرت کو روکا جائے اور مہاجرین کی ان کے آبائی ممالک واپسی کے لیے جامع منصوبے ترتیب دیے جائیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرین يو اين ايچ سی آر نے اپنے ایک بیان میں کہا،’’یہ بات قابل افسوس ہے کہ ڈنمارک میں پناہ گزینوں کے خلاف ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جبکہ يہ مہاجرين پہلے ہی بے حد مشکلات سے گزر کر وہاں تک پہنچے ہیں۔‘‘
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے بیان میں مزید کہا ہے کہ یہ محض ایک چھوٹا سا گروپ ہے جو ایسے واقعات میں ملوث ہے۔ ڈنمارک میں حزب مخالف ڈینش سوشل لبرل پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون قانون ساز کا کہنا ہے کہ وہ حکومت سے پوچھیں گی کہ اس قسم کے واقعات کے سدّباب کے لیے کون سے قانونی راستے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ ڈنمارک کے شہر ہیڈرسلیوو کی آبادی قریب بائیس ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ عالمی تنظيم ریڈ کراس کی ڈنمارک میں قائم شاخ کے مطابق حال ہی میں ہیڈرسلیوو شہر میں ایک مہاجر کیمپ قائم کیا گیا ہے جس میں ایک سو چالیس پناہ گزینوں کو رکھا گیا ہے۔
خیال رہے کہ یورپ کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد مہاجرت کے بد ترین بحران کا سامنا ہے۔ جنگ زدہ ممالک اور غربت کے ہاتھوں پریشان حال لاکھوں تارکین وطن نے گزشتہ برسوں میں یورپ کا رخ کیا ہے۔