1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈنمارک کے پارلیمانی انتخابات

14 نومبر 2007

ڈنمارک میں قبل از وقت منعقدہ پارلیمانی انتخابات کے بعد بھی وہی قیادت برسرِ اقتدار رہے گی، جو اب تک اِسکنڈے نیویا کے اِس ملک میں حکومت کرتی چلی آ رہی تھی۔ تاہم وزیر اعظم راس مسن نے کہا کہ وہ اُن تمام جماعتوں کے تعاون کے خواہاں ہیں، جو اُن کی حمایت کرتی رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/DYGC
نئی نئی قائم ہونے والی جماعت نیو الائنس پارٹی کے سربراہ شامی نژاد 44 سالہ مسلمان سیاستدان ناصر خضر
نئی نئی قائم ہونے والی جماعت نیو الائنس پارٹی کے سربراہ شامی نژاد 44 سالہ مسلمان سیاستدان ناصر خضرتصویر: picture-alliance/ dpa

تیسری آئینی مدت کے لئے وزیر اعظم منتخب ہونے والے اَناس فوہ راس مُسن نے گذشتہ چھ برسوں میں اپنے ملک کا سیاسی منظر نامہ بدل کے رکھ دیا ہے۔ دائیں بازو کی آزاد خیال جماعت وَینسٹرے کے سربراہ راس مُسن نے قدامت پسندوں کے ساتھ اپنی مخلوط حکومت کے دوران دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت DPP کی مدد سے غیر ملکیوں کے خلاف ایسی پالیسیاں بنائیں، جو مغربی یورپ میں سخت ترین قرار دی جاتی ہیں۔ اِس بار البتہ اُن کے حکومتی اتحاد کو پارلیمان میں محض ایک نشست کی اکثریت حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ راس مُسن کو دیگر سیاسی عناصر کے تعاون کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اپنی کامیابی پر بے پناہ خوش راس مُسن نے کہا:

"ہماری جماعت Venstre کی قیادت میں قائم حکومت کی اب تیسری مرتبہ توثیق ہوئی ہے۔ تینوں مرتبہ وَینس ٹرے سب سے مضبوط جماعت بنی، جو ایک تاریخی حقیقت ہے۔عوام نے آج ہمیں اپنے حکومتی اقدامات جاری رکھنے کےلئے واضح اختیارات دئے ہیں۔ انتخابات سے پہلے مَیں نے جو کچھ کہا تھا، اب بھی مَیں اُس پر قائم ہوں۔"

راس مُسن کا اشارہ اُن اصلاحات کی جانب ہے، جن میں ٹیسکوں میں کمی کے ساتھ ساتھ عوامی بھلائی کے شعبوں مثلاً اسکولوں، ہسپتالوں یا عمر رسیدہ افراد کے ہوسٹلز وغیرہ میں سرمایہ کاری بڑھانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ راس مُسن کو بہرحال کئی نئے چیلنجوں کا بھی سامنا ہو گا۔ اب راس مُسن کو ایک مستحکم حکومت بنانے کے لئے مزید ساتھیوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اب تک اُن کی مخلوط حکومت کے ساتھ تعاون کرنے والی ڈنمارک پیپلز پارٹی DPP نے کہا ہے کہ راس مُسن اِس جماعت کی 25 نشستوں کو نظر انداز نہ کریں۔ جبکہ راس مُسن دائیں بازو کی کٹر نظریات رکھنے والی اور تارکینِ وطن کی سخت مخالف اِس جماعت یعنی DPP کے ساتھ باقاعدہ حکومتی اتحاد سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔

نئی نئی قائم ہونے والی ایک جماعت نیو الائنس پارٹی کی قیادت شامی نژاد چوالیس سالہ مسلمان سیاستدان ناصر خضر کر رہے ہیں۔ توقعات کے برعکس یہ جماعت، جو ٹیکسوں میں کمی کے ساتھ ساتھ تارکینِ وطن کی جانب نرم پالیسیوں کی بھی علمبردار ہے، محض پانچ نشستیں جیت پائی ہے۔ چنانچہ ناصر خضر بھی اب اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں رہے اور اُن کے لہجے میں کافی نرمی آ گئی ہے۔

ناصر خضر: "ہماری تجویز ہے کہ راس مُسن اپنی حکومت کا استعفےٰ ملکہءڈنمارک کو پیش کر دیں اور حکومت کی تشکیل کا سرا کام صفر سے شروع کیا جائے۔ ہمارے حوصلے بہت بلند ہیں اور چاہتے ہیں کہ جتنا زیادہ سے زیادہ ہو سکے، حاصل کریں۔"

راس مُسن کی کوشش یہ ہو گی کہ جس طرح وہ ماضی میں دائیں بازو کی DPP کو حکومت میں شامل کئے بغیر اُس کا تعاون حاصل کرتے رہے ہیں، اِسی طرح وہ اب ناصر خضر کی جماعت نیو الائنس پارٹی کو بھی حکومتی اتحاد میں شامل کئے بغیر اُس کا تعاون حاصل کریں۔