1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈوئچے ویلے کے صحافیوں کا دورہء پوٹسڈام

8 اکتوبر 2009

جرمن فوج کے تمام بین الاقوامی مشنز کی منصوبہ بندی اور فوجیوں کی تربیت سے لے کر سامان کی ترسیل تک، سب کچھ جرمن دارالحکومت کے نواح میں واقع خوبصورت اور چھوٹے سے شہر پوٹسڈام میں واقع فوجی مرکز سے کیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/K23G
تصویر: AP

پوٹسڈام میں قائم جرمن فوج کی یہ چھاؤنی کتنی اہم ہے، اِس بات کا اندازہ اس بریفنگ سے ہوا، جو بنڈس ویہر یعنی جرمن فوج کے ترجمان کلاؤس بیو کلائن نے دی۔

امن کی بحالی وہ نعرہ ہے جس کے تحت جرمن فوج کسی بھی بین الاقوامی مشن کا حصہ بنتی ہے۔ بنڈس ویہر کسی بھی مشن کے لئے خود فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ اس کے لئے جرمن پارلیمان کی منظوری حاصل کرنا لازمی ہے اور ساتھ ہی بین الاقوامی سطح پر تمام مشنز پر جرمن فوج اکیلی نہیں بلکہ کسی نہ کسی دوسرے ملک کی فورسز کےساتھ ہے۔ لیکن ایک صورتحال ایسی ہے، جس میں بنڈس ویہر تنہا کسی کارروائی میں حصہ لے سکتی ہے، وہ یہ کہ اگر کسی بحرانی علاقے سے جرمن باشندوں کو باہر نکالنے کا مرحلہ درپیش ہو۔

Die Flagge der Asien Pazifik Wochen vor dem Gendarmenarkt in Berlin
تصویر: Hao Gui / DW

جرمن فوج کے تمام بین الاقوامی مشنز جرمنی کے ماضی کو نظر میں رکھ کر تیار کئے جاتے ہیں۔ اس بارے میں یہ کہا جائے کہ بنڈس ویہر بہت حساس ہے، تو غلط نہ ہو گا۔ حالت امن میں جرمن فوج کی سربراہی وفاقی وزیر دفاع کے پاس ہوتی ہے جبکہ جنگ کے دور میں یہ ذمہ داری جرمن چانسلر کو منتقل ہو جاتی ہے۔

کسی بھی بین الاقوامی مشن میں جرمن سپاہی چار ماہ تک بحران زدہ ملک میں تعینات رہتا ہے۔ لیکن اگر کوئی سپاہی اپنی تعیناتی کی مدت ختم کئے بغیر واپس آنا چاہے تو کیا ہو گا؟ اگر وہ کسی بیماری کا شکار ہے اور اس کا علاج وہاں نہیں کیا جا سکتا تو اسے فوراً وطن واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ فوجی نفسیاتی مسائل کا شکار ہے تو ہر بین الاقوامی مشن میں ایک ماہر نفسیات موجود ہوتا ہے، جو متاثرہ اہلکار کو ان مسائل سے باہر نکالنے میں مدد کرتا ہے۔

Bundeswehr Afghanistan Camp Warehouse in Kabul
تصویر: AP

اگر کوئی جرمن فوجی انسانی حقوق کی خلاف وزری کرتے ہوئے پایا جائے یا کوئی ایسا قدم اٹھا لے، جو جرمن آئین اور فوجی ضوابط کے خلاف ہو تو اس کے خلاف جرمنی کی سول عدالت میں مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ لیکن اگر چوری وغیرہ کا کوئی معمولی نوعیت کا واقعہ ہو تو اس کے لئے وہیں پر قائم فوجی عدالت کارروائی کرتی ہے۔ اسی طرح ایک قانونی ماہر بھی مشن کا حصہ ہوتا ہے۔

جرمن فوج کے آپریشن سینٹر کو او پی زیڈ کہتے ہیں۔ جرمن فوج کے اب تک بیاسی سپاہی مختلف بین الاقوامی مشنز میں ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں سےچھتیس افغانستان میں موت کا شکار ہوئے۔

ترجمان کلاؤس بیو کلائن کے مطابق جرمن فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں جو خبریں میڈیا میں آتی ہیں، وہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہوتی ہیں۔ انہوں نےکہا کہ تمام ہلاکتین دہشت گردی یا حملوں کی وجہ سے ہی نہیں ہوئی ہیں بلکہ ان میں وہ فوجی بھی شامل ہیں، جن کی موت طبعی تھی یا پھر وہ کسی حادثے کاشکار ہوئے۔

آج کل سب سے زیادہ جرمن فوجی افغان مشن کا حصہ ہیں۔ چار ہزار سے کی اس تعداد میں دو سو خواتین جبکہ تقریباً تین سو فوجی ہنگامی صورتحال کے لئے مخصوص ہیں۔

افغان مشن کے بعدکوسووو دوسرے نمبر پر آتا ہے، جس میں دو ہزار تین سو فوجی شامل ہیں۔ افغانستان میں تعینات جرمن فوجیوں کے لئے عسکری امداد کے ساتھ ساتھ تمام تر ضروریات زندگی کے تمام تر سامان لیکر تیل تک جرمنی ہی سے بھیجا جاتا ہے۔