ڈوب رہے ہو اور بہتے ہو۔۔۔
12 نومبر 2008مالدیپ میں مطلق العنان صدر محمّد عبدالقیّوم کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے اور مالدیپ کے پہلے جمہوری انتخابات میں ماضی کے سیاسی قیدی محمّد نشید فتح حاصل کر کے ملک کے صدر بن چکے ہیں۔ لیکن محمّد نشید ایک ڈوبتے ہوئے ملک کے صدر ہیں۔
بارہ سوجزائر پر مشتمل ملک مالدیپ کے صرف دو سو جزائر پر آبادی پائی جاتی ہے اور یہ جزیرے سطحِ سمندر سے محض چار انچ ہی اوپر ہیں۔ زمین کے درجہِ حرارت میں اضافے کی وجہ سے قطب شمالی میں برفانی تودے پگھل رہے ہیں اور ماحولیات کے ماہرین میں سے اکثر کی یہ رائے ہے کہ اس صدی کے اختتام تک سطحِ سمندر میں سات انچ تک اضافہ متوقع ہے۔ یہ حال رہا تو مالدیپ ڈوب جائے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ مالدیپ کے چار لاکھ باشندے کہاں جائیں گے؟
مالدیپ کے نو منتخب صدر نے حلف اٹھاتے ہی بین الاقوامی برادری کی توجّہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔ وہ مالدیپ کے ڈوبتے ہوئے جزائر کے باشندوں کو کسی دوسرے ملک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ جدید انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا کہ کسی ملک کے باشندوں کو کسی دوسرے ملک منتقل کیا جائے گا۔ اس حوالے سے مالدیپ کی حکومت نے سیّاحت سے حاصل ہونے والی رقم سے ایک فنڈ جمع کرنے کا ارادہ کیا ہے جس کی مدد سے مستقبل میں کسی دوسرے ملک میں زمین خریدی جائے گی اور وہاں ڈوبتے ہوئے افراد کو بسایا جائے گا۔
وہ کون سے ممالک ہیں جو مالدیپ کے باشندوں کو جگہ دیں گے یا جہاں ماحولیاتی مہاجرین کہلائے جانے والے ان افراد کو بسایا جا سکتا ہے؟ امریکی ٹی وی چینل سی این این کے مطابق یہ ممالک سری لنکا اور بھارت ہوسکتے ہیں چوں کہ ان ممالک کئی ایک اقتدار مشترک ہیں۔
اس کے باوجود یہ سوچنا چاہیے کہ اگر آپ سے کہا جائے کہ آپ کا وطن ڈوب جائے گا، اور اس کے ساتھ سب کچھ، تو آپ کا کیا ردِ عمل ہوگا؟ ماہرین کے مطابق کچھ یہی حال پوری دنیا کا ہے؟ ہم کہاں جائیں گے؟
بقول شاعر گلزار کے،
ڈوب رہے ہو اور بہتے ہو
دریا کنارے کیوں رہتے ہو