1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معاہدے پر عملدرآمد شروع، يونان ميں مہاجرين کی نقل و حرکت بند

عاصم سليم21 مارچ 2016

يورپی يونين کے ساتھ طے پانے والے معاہدے پر عملدرآمد ميں مدد فراہم کرنے کے ليے ترک مبصرين کی ايک ٹيم آج يونان پہنچ گئی ہے۔ دريں اثناء يونانی جزائر پر تارکين وطن کی آمد کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/1IGuu
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis

خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کی يونانی دارالحکومت ايتھنز سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ترک اہلکاروں کی ٹيم پير اکيس مارچ کے روز ليسبوس اور خيوس کے مقامات پر پہنچيں۔ ترک اہلکار غير قانونی تارکين وطن کی يورپ آمد کو روکنے کے ليے اٹھائيس رکنی يورپی يونين کے ساتھ گزشتہ ہفتے طے پانے والی ڈيل پر عملدرآمد کی نگرانی کريں گے۔

اس معاہدے پر عملدرآمد اتوار بيس مارچ کے دن سے شروع ہوا اور اس وقت سے اب تک 1662 مہاجرين يونانی جزائر پہنچ چکے ہيں۔ يہ اعداد و شمار مہاجرين کے بحران سے نمٹنے والی يونانی ايجنسی SOMP کی جانب سے آج پير کے روز جاری کيے گئے ہيں۔ ايجنسی کے مطابق 820 تارکين وطن خيوس جبکہ 698 ليسبوس کے جزيرے پر پہنچے۔ يہ دونوں جزائر یونان کے شمال مشرق ميں ترکی سے قريب واقع ہيں اور بحيرہ ايجيئن سے متصل واقع ہيں۔ ان تمام تارکين وطن کو يونان آمد پر کوسٹ گارڈز کی ايک بس پر سوار کر ديا گيا، جو انہيں موريا ميں قائم ايک ’ہاٹ اسپاٹ‘ پر منتقل کر رہی ہے۔ اس مرکز ميں ان کا اندراج کيا جائے گا اور ان کی سياسی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی ہو گی۔

معاہدے کو حتمی شکل سترہ اور اٹھارہ مارچ کو منعقدہ سمٹ ميں دی گئی
معاہدے کو حتمی شکل سترہ اور اٹھارہ مارچ کو منعقدہ سمٹ ميں دی گئیتصویر: EU Council Press

يونان آمد پر شامی شہر حلب سے تعلق رکھنے بتيس سالہ ايک سابقہ اکاؤنٹنٹ احمد بيختر کا کہنا تھا، ’’ہم کافی تھک چکے ہيں۔ ہم سويڈن ميں اپنے اہل خانہ کے پاس جانا چاہتے ہيں۔‘‘ ديگر پناہ گزينوں کی طرح اس شامی تارک وطن کو بھی يورپی يونين اور ترکی کے مابين طے پانے والے معاہدے کا کوئی علم نہ تھا۔ نئے آنے والے کو ان کی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی تک نظر بند رکھا جائے گا اور درخواست مسترد ہو جانے کی صورت ميں واپس ترکی بھيج ديا جائے گا۔ احمد بيختر کے بقول وہ براہ راست شام سے سفر کر رہا تھا اور حاليہ پيش رفت سے قطعی طور پر نا واقف ہے۔ اس نے بتايا، ’’ہمارے پاس نہ بجلی ہے اور نہ ہی کچھ اور۔ ہم تمام چيزوں سے نا واقف ہيں۔‘‘

واضح رہے کہ انقرہ اور برسلز کی حاليہ ڈيل سے قبل يونان پہنچنے والے مہاجرين پر کوئی سفری پابندياں عائد نہيں تھيں اور وہ کيمپ سے باہر ديگر مقامات پر آ جا سکتے تھے تاہم اب انہيں اپنی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی تک مخصوص مراکز ہی ميں وقت گزارنا ہو گا اور ناکام درخواست دہنگان کی ترکی واپسی کا عمل چار اپريل سے شروع ہو گا۔

دريں اثناء کے يونانی ايجنسی SOMP کے ترجمان گےآرگوس کائرٹسس کا کہنا ہے کہ مہاجرين کی مسلسل آمد کئی مسائل کا پيش خيمہ ثابت ہو گی اور يہ پيش رفت فريقوں کی نيت کے حوالے سے سوال اٹھاتی ہے۔