1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ڈھائی لاکھ مہاجرین بحیرہ ایجیئن کے راستے یورپ آ سکتے ہیں‘

عاطف توقیر14 جون 2016

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین UNHCR کے مطابق رواں برس مشرقی بحیرہء روم سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد ڈھائی لاکھ تک ہو سکتی ہے۔ گزشتہ برس اس راستے سے ایک ملین سے زائد مہاجرین یورپ پہنچے تھے۔

https://p.dw.com/p/1J692
Mazedonien Flüchtlingslager in Tabanovce
تصویر: DW/V. Mircevski

یو این ایچ سی آر نے گزشتہ برس کے مقابلے میں بحیرہء ایجیئن کے راستے یورپی یونین میں داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد کے بارے میں اپنے اعداد و شمار تبدیل کیے ہے۔ رواں برس کے آغاز میں اس عالمی ادارے نے کہا تھا کہ سال کے آخر تک ترکی سے یونان کے راستے یورپی یونین میں داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد ایک ملین تک ہو سکتی ہے۔

عالمی ادارے کے مطابق رواں برس اب تک اس راستے سے یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ 56 ہزار ہے جب کہ سن 2016ء کے اختتام تک مزید 92 ہزار مہاجرین اسی راستے سے یونان پہنچ سکتے ہیں۔

عالمی ادارے نے یہ اندازے اپنے ’ریجنل ریفیوجی پلان‘ میں بتائے ہیں۔ اس سے قبل یو این ایچ سی آر نے جنوری میں مہاجرین کے حوالے سے اپنے منصوبے اور اندازوں کا اجرا کیا تھا۔

بلقان کی ریاستوں کی جانب سے قومی سرحدوں کی بندش اور یورپی یونین اور ترکی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد سے بحیرہء ایجیئن کے راستے یورپی یونین میں داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔

Griechenland Flüchtlinge in Athen UNHCR
یو این ایچ سی آر کے مطابق یونان آنے والے مہاجرین کی تعداد کم ہوئی ہےتصویر: DW/R. Shirmohammadi

UNHCR کے مطابق، ’’ایک مقام سے دوسرے مقام کی جانب منتقل ہونے والے افراد کے لیے اقدامات کے بعد اب عالمی ادارہ شہری علاقوں میں ٹھہر جانے والے مہاجرین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے گا، جب کہ ان مہاجرین کے حوالے سے تیار کردہ لائحہ عمل کو ٹھوس شکل دینے کے لیے چھ سو ستر ملین ڈالر کا بجٹ مختص ہو گا۔‘‘

عالمی ادارے کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’سابقہ راستہ بند ہو جانے کے بعد اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ یہ مہاجرین انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کی مدد سے یورپی یونین میں داخلے کی کوشش کریں گے اور اس عمل کے دوران وہ انتہائی خطرناک حالات سے دوچار ہو سکتے ہیں، جب کہ اس دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بھی خدشات ہیں۔‘‘

اس دستاویز میں یورپ پہنچنے کے دیگر راستوں کے حوالے سے بات نہیں کی گئی۔ یہ بات اہم ہے کہ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد وسطی بحیرہء روم کے ذریعے لیبیا سے اٹلی پہنچنے میں بھی مصروف ہے۔ اس زیادہ پرخطر راستے کو استعمال کر کے رواں برس کے دوران اب تک قریب 50 ہزار مہاجرین یورپ پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں، جب کہ اس بیچ ڈھائی ہزار سے زائد مہاجرین بحیرہء روم کی موجوں کی نذر بھی ہو گئے۔