1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈینگی بخار کا خوف اور نئی دہلی حکومت کی کوششیں

عاطف بلوچ19 اکتوبر 2015

صبح ہوتے ہی نئی دہلی کے سڑکوں پر سپرے کرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ حکام کی کوشش ہے کہ اس سیزن میں ڈینگی کی وباء ہلاکت خیز ثابت نہ ہو۔ اس سلسلے میں ایک بڑی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GqIG
Indien Krankenhaus Fieber nach Flut
تصویر: C. Khanna/AFP/Getty Images

حکومت کی طرف سے احتیاطی تدابیر کے باوجود نئی دہلی کے باسیوں میں ایک خوف واضح ہے۔ ماؤں کی کوشش ہے کہ ان کے بچے ایسے کپڑے پہنیں، جن سے ان کے جسم کا کوئی حصہ عیاں نہ ہو۔ ماضی میں حکومتوں کی کوشش کے باوجود اس وباء پر قابو پانے میں کامیابی نہیں ہو سکی تھی۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران پھوٹنے والی اس بدترین وباء کی وجہ سے رواں برس اب تک بتیس افراد ہلاک جبکہ دس ہزار سے زائد متاثر ہو چکے ہیں۔

ماہرین نے صت عامہ کے حکام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ احتیاطی تدابیر اور اس وباء کے خلاف ردعمل میں سستی برتی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کی حکومت کو سپرے اور دیگر احتاطی تدابیر کے لیے کئی ماہ پہلے ہی سرگرم ہو جانا چاہیے تھا تاکہ ایسے مچھروں کو پرورش پانے کا وقت ہی نہ ملتا، جو ڈینگی بخار کا باعث بنتے ہیں۔ جنرل فزیشن دویندر جین نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا، ’’اگر صفائی کا کام اور مچھروں کے خلاف سپرے پہلے ہی کر لیا جاتا تو اس بیماری پر قابو پانا ممکن ہو جاتا۔‘‘

بھارت کی پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن کے محقق منیش ککڑ کے بقول اس وباء پر قابو پانا کوئی مشکل کام نہیں ہے، ’’یہ کوئی راکٹ سائنس تو نہیں ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ بھارت میں پبلک ہیلتھ کا شعبہ مناسب کام نہیں کر رہا۔‘‘ ڈینگی بخار نے بھارت میں صحت عامہ کے شعبے میں ہونے والی نا انصافیوں کو بھی اجاگر کر دیا ہے۔ اسی ملک میں سٹَیم سیل ٹریٹمنٹ سے لے کر ’ٹَمی ٹک‘ تک جیسی سہولیات دستیاب ہیں، جنہیں صرف امیر طبقہ ہی برداشت کر سکتا ہے جبکہ دوسری طرف بنیادی بیماریوں کے خلاف یہ نظام ابھی تک مشکلات کا شکار ہے۔

دوسری طرف ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بہت سے ایسے لوگ غیر ضروری طور پر طبی توجہ کا مطالبہ کرتے ہیں جنہیں اس کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ڈینگی بخار سے متعلق میڈیا اپنی خبریں بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ ڈاکٹر سونیکا بالی نے اے پی کو بتایا، ’’بنیادی طور پر ایک خوف پایا جا رہا ہے اور مریض ڈرے ہوئے ہیں۔ ہم یہاں ہر مریض کا بلڈ ٹیسٹ نہیں کر سکتے۔ یہ مشکل ہو گیا ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ ان کی بیماری کی علامات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ڈینگی میں مبتلا نہیں ہیں۔‘‘

Indien Krankenhaus Fieber nach Flut
ماہرین نے حکام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ احتیاطی تدابیر اور اس وباء کے خلاف ردعمل میں سستی برتی جا رہی ہےتصویر: C. Khanna/AFP/Getty Images

یہ امر اہم ہے کہ نئی دہلی میں معمولی بیماری پر بھی لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے ٹیسٹ کروائیں۔ طبی حکام کے مطابق یوں ایسے لوگوں کو توجہ دینا مشکل ہو جاتی ہے، جو حقیقی طور پر ڈینگی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اکثر کیسوں میں ایسے افراد کے علاج میں تاخیر کی وجہ سے وہ بری طرح متاثر ہو چکے ہوتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں بھی ڈینگی بخار کی وباء کنٹرول سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق کراچی، لاہور، ایبٹ آباد، ملتان اور دیگر کئی شہروں میں متعدد افراد اس وباء کا شکار ہو چکے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ راولپنڈی میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کم ازکم اکاون افراد اس وباء میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ راولپنڈی حکام نے تصدیق کی ہے کہ مجموعی طور پر کم ازکم دو ہزار افراد میں اس بیماری کے وائرس کی موجودگی کی تشخیص ہو چکی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید