1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل اور اسلام آباد تعلقات میں بہتری کے لیے ورکنگ گروپ

شادی خان سیف، کابل
11 جون 2017

افغان صدر محمد اشرف غنی نے کہا ہے کہ کابل اور اسلام آباد نے ان تمام گروہوں کے خلاف اقدامات پر اتفاق کر لیا ہے، جو نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے لیے بلکہ تمام خطے کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2eTnz
Pakistans Premier Sharif mit afghanischem Präsidenten Ghani in Kabul
افغان صدر محمد اشرف غنی اور پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کی کابل میں بارہ مئی 2015ء کو ہونے والی ملاقات کا ایک منظر (فائل فوٹو) تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai

بداعتمادی کے متعدد ادوار اور سرحد پار دہشت گردی کے پے در پے الزامات کے تناظر میں صدر غنی کے اس بیان کو ایک مثبت پیشرفت کے طور پر دیکها جا رہا ہے۔ غنی نے پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں گزشتہ ہفتے ایک غیر اعلانیہ ملاقات کے حوالے سے اپنی تازہ ’ٹوئیٹس‘ میں لکها ہے کہ دونوں ممالک نے ایک ورکنگ گروپ کی تشکیل پر اتفاق کیا ہے، جو مربوط مسائل کے لیے حل تلاش کرے گا۔ اس گروپ کا پہلا اجلاس کابل میں منعقد ہو گا۔

سال 2014ء میں اقتدار سنبهالنے کے بعد صدر غنی نے ماضی کی تلخیوں کے باوجود ایک جرأت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے اپنے پہلے بیرونی دورے پر اسلام آباد کے ایوان وزیر اعظم اور سفارتی پروٹوکول کے برعکس راولپنڈی میں پاک فوج کے صدر دفاتر کا دورہ کیا تها۔ غنی نے گزشتہ ہفتے کابل منعقدہ ’کابل پروسس‘ نامی ایک بین الاقوامی نشست میں خطاب کرتے ہوئے اپنے اس دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے مشکل حالات میں پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑهایا مگر اسے مسترد کردیا گیا‘۔ غنی کا اشارہ ان کی اس ملاقات کے کچھ مہینوں بعد کابل میں ہونے والے خونریز حملوں کی جانب تھا، جن کا ذمہ دار طالبان کے حقانی نیٹ ورک کو، جسے پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی کے قریب خیال کیا جاتا ہے، ٹھہرایا گیا تها۔

نواز شریف کے ساتھ آستانہ میں 45 منٹ تک ہونے والی تازہ ملاقات بابت اظہار خیال کرتے ہوئے افغان تجزیہ نگار محمد عارف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کابل حکومت پر یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان کی حمایت کے بغیر طالبان سے امن مذاکرات یا پهر افغان تنازعے کا کوئی دیرپا حل آسان نہیں:’’یہ (افغان قیادت) اس بات کو بخوبی سمجھتی ہے کہ پاکستان اس مسئلے کا ایک اہم فریق ہے اور پاکستان کی سیاسی قیادت کو بهی اچھی طرح سے علم ہے کہ افغانستان میں جاری خونریزی اور بدامنی کے اثرات وہاں تک محدود نہیں ہیں، دونوں کے  لیے بہتر ہے کہ الزام تراشی میں مزید وقت ضائع کیے بغیر اتفاق رائے اور خوش اسلوبی سے مسائل کا حل تلاش کریں۔‘‘

شنگهائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر افغان صدر اور پاکستانی وزیر اعظم کی غیر رسمی نوعیت کی ملاقات ایک ایسے موقع پر ہوئی، جب روس اور چین کی قیادت میں تشکیل پانے والی اس تنظیم نے بهارت اور پاکستان کو بهی رکنیت دے دی ہے۔ اس طرح افغانستان کے لیے پاکستان کی اہميت اور بھی زياده ہوگئی ہے۔ افغان صدر نے اپنی ٹوئٹ میں لکها ہے کہ دو طرفہ مسائل اور قیام امن کے لیے چار فریقی کواڈریٹ کوآپریشن گروپ، جس میں چین اور امریکا فریق ہیں، کے استعمال پر بهی اتفاق ہوا ہے۔

Afghanistan Explosion in Kabul
افغان دارالحکومت کابل کے سفارتی علاقے میں جمعرات 31 مئی کو ہوئے ایک ٹرک حملے میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تهےتصویر: Reuters/O. Sobhani

واضح رہے کہ دو ہفتے قبل کابل میں اس شہر کی حالیہ تاریخ کے خونریز ترین دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری مبینہ طور پر آئی ایس آئی اور حقانی نیٹ ورک پر ڈالی گئی تھی۔ سفارتی علاقے میں جمعرات 31 مئی کو ہوئے اس ٹرک حملے میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تهے۔ اس حملے کے بعد افغان کرکٹ ٹيم نے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ سيريز کو منسوخ کر ديا تھا۔

پاکستان ان الزامات کو مسترد کر چکا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے آستانہ میں ہوئی ملاقات کے دوران کابل میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کی اور دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لانے کا یقین دلایا۔