1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل کے طالبان سے مذاکرات: ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

7 اکتوبر 2010

افغانستان کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے پہلی مرتبہ ان علامات ميں اضافہ ہو رہا ہے کہ تمام فريق تنازعے کا سياسی حل چاہتے ہيں۔ ممتاز امريکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق کرزئی حکومت نے طالبان کی قيادت سے مذاکرات شروع کرديے ہيں۔

https://p.dw.com/p/PXsv
صدر حامد کرزئی قندہار ميں قبائلی سرداروں سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: AP

عالمی برادری کی حمايت سے افغانستان پر امريکی حملے کے نو سال پورے ہو رہے ہيں۔ امريکہ نے شمالی اتحاد کی مدد سے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کر ديا اور افغانستان کو دہشت گرد تنظيم القاعدہ کے تربيتی کيمپوں اور جنگجوؤں کی بھرتی کے لئے استعمال کرنے کا سلسلہ بند کر ديا۔ 11 ستمبر سن 2001 کو امريکہ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد يہ اقدام ناگزیر تھا۔

تاہم اس کے بعد سے يہ جنگ امريکہ اور اُس کے اتحادی ملکوں کے فوجيوں کی بڑی تعداد ميں ہلاکت کا سبب بن رہی ہے اور اس پر اربوں ڈالر بھی خرچ ہو چکے ہيں۔ بہت سے افغان شہری بھی اس جنگ ميں ہلاک ہو چکے ہيں۔ کرزئی حکومت ملک پر اپنے اختيار سے محروم ہو چکی ہے اور طالبان افغانستان کے بہت بڑے حصے کو دوبارہ اپنے زير اثر لے آئے ہيں۔

Trauerfeier Soldaten Afghanistan
افغانستان سےجرمن فوجيوں کی نعشوں کی جرمنی ميں آمدتصویر: AP

اس کے باوجود دونوں فريق يہ جانتے ہيں کہ وہ يہ جنگ فوجی لحاظ سے کبھی بھی نہيں جيت سکتے۔ کچھ عرصہ پہلے امريکی فوجيوں کی تعداد ميں اضافے کے بعد بہت زور و شور سے ہونے والی موسم گرما کی ايک بڑی فوجی کارروائی کے بھی کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہيں ہوئے ہيں۔ اس دوران افغانستان ميں غير ملکی افوج کو پٹرول اور ساز و سامان کی فراہمی تک بھی طالبان کے حملوں کی زد ميں آ چکی ہے۔

افغانستان ميں امريکی اور يورپی افواج کی سرگرمياں خود اُن کی حکومتوں کے لئے ايک سياسی بوجھ بھی بن چکی ہيں۔ امریکہ کی اعلیٰ ترين فوجی قيادت کی طرف سے بھی يہ تسليم کئے جانے کے بعد کہ افغانستان کی جنگ ميں فوجی فتح ممکن نہيں، تمام متعلقين پر مذاکرات کے ذريعے سياسی حل کی تلاش کے لئے دباؤ بہت زیادہ ہو گیا ہے۔

David Petraeus NATO US Force Afghanistan
افغانستان ميں امريکی اور نيٹو افواج کے کانڈر جنرل ڈيوڈ پيٹريستصویر: AP

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ملا عمر نے طالبان کی نئی نسل کو کرزئی اور امريکہ کے ساتھ مذاکرات کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

ليکن اس بات پر کوئی سمجھوتہ نہيں ہو سکتا کہ القاعدہ اور ملا عمر واپس نہيں آئيں گے۔ اس لئے کہ ایسی صورت میں افغانستان ايک بار پھر دہشت گردوں کا ٹھکانہ بن جائے گا۔ ملا عمر کا مستقبل سعودی عرب ميں جلاوطنی ہو سکتا ہے۔ افغانستان ميں مغربی طرز کی جمہوريت ممکن نہيں کيونکہ افغان عوام کی اکثريت اسے پسند نہيں کرتی۔

امريکہ کو اس پر کوئٍ اعتراض نہيں ہوسکتا کيونکہ صدر اوباما افغانستان ميں فوجی سرگرمياں جلد از جلد ختم کردينا چاہتے ہيں۔اس وقت اوباما کو کانگريس کے اگلے انتخابات کی وجہ سے بھی افغانستان کے سلسلے ميں سفارتی سطح پر پيش رفت کی اشد ضرورت ہے۔

تبصرہ: دانيئل شَيشکے وِٹس

ترجمہ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں