1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کتاب میلے کے لیے رقوم ہیں، لیکن اسکولوں میں نصابی کتب نہیں

عصمت جبیں، اسلام آباد24 اپریل 2016

پاکستانی دارالحکومت میں کچھ ہی عرصے میں کتابوں کے دو کامیاب میلوں کا انعقاد تو ہو گیا لیکن شہر کے اکثر اسکولوں کے بچے اور ان کے والدین اس وجہ سے پریشان ہیں کہ انہیں نصابی کتابیں ابھی تک دستیاب نہیں ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Ibon
Pakistan Buchmesse in Islamabad
تصویر: DW/I. Jabeen

اسلام آباد میں لوک ورثہ کمپلیکس میں لٹریچر فیسٹیول کے حالیہ کامیاب انعقاد کے بعد پاک چائنا فرینڈشپ سینٹر میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے جس تین روزہ کتاب میلے کا اہتمام کیا گیا، اتوار 24 اپریل کو اس کا آخری دن ہے۔ اپنی نوعیت کا یہ ساتواں کتاب میلہ جمعہ 22 اپریل کو شروع ہوا تھا لیکن اس کے افتتاحی روز اس کی ایک قابل ذکر بات وہاں کیا جانے والا ایک احتجاجی مطاہرہ بھی تھا۔

'کتاب سے ہے زندگی‘ کے عنوان سے اہتمام کردہ اس قومی میلے میں آخری روز بھی قارئین اور کتاب دوست شہریوں کا خاصا رش رہا۔ اس میلے میں 160 سے زائد نامور اور بڑے کتب فروشوں اور پبلشرز اپنے اسٹال لگا رکھے تھے۔ اس نیشنل بک فیسٹیول میں ادب اور فنون لطیفہ کی مختلف اصناف سے متعلق 50 سے زائد نشستیں ہوئیں۔

ان میں کتابوں کی تقاریب رونمائی، کتاب خوانی، سفیران کتاب کانفرنس، اسٹیج پرفارمنس، تخلیقی نگارشات کا مقابلہ اور مکالماتی نشستوں جیسے ایونٹ شامل تھے۔

اس فیسٹیول میں اردو کے معروف ادیبوں، مفکرین، مصنفین اور دیگر طبقہ ہائے فکر کے افراد نے بھرپور شرکت کی۔ جب کہ عام شائقین کے لیے غالب، علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کے مجسمے بھی خصوصی توجہ کا مرکز بنے رہے۔

اہم بات یہ ہے کہ ایک طرف یہ گہما گہمی تھی تو دوسری جانب یہ حقیقت کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن اور وفاقی نظامت تعلیمات اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کے لیے کتابوں کی بروقت فراہمی میں ناکام ہو چکے ہیں۔ نئے تعلیمی سیشن کا آغاز ہو چکا ہے لیکن تاحال 60 فیصد تعلیمی اداروں کو نصابی کتب دستیاب ہی نہیں۔

Pakistan Buchmesse in Islamabad
طلبا اور اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ اس میلے کے خلاف نہیں ہیں لیکن نصابی کتابوں کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائےتصویر: DW/I. Jabeen

ماہرین پوچھتے ہیں کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن خطیر رقوم صرف کر کے کتاب میلے کا انعقاد تو کرا سکتی ہے لیکن تمام طلبہ و طالبات کو ابھی تک نصابی کتابیں کیوں فراہم نہیں کر سکی؟ نصابی کتب کی عدم دستیابی کے باعث اسلام آباد کو 'نالج سٹی‘ اور رول ماڈل بنانے کا منصوبہ ناکام ہو جانے کا خدشہ ہے۔

کتاب میلے کے پہلے روز سینکڑوں کی تعداد میں طلبا، والدین اور اساتذہ نے میلے کے باہر جمع ہو کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ اس احتجاج میں شریک ایک پرائیویٹ اسکول کے پرنسپل عاصم بیگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم کتاب میلے کی مخالفت نہیں کرتے۔ ہمارا احتجاج نصابی کتب کی عدم فراہمی کی وجہ سے ہے۔ نصابی کتب کی عدم ترسیل کتاب میلے کے انعقاد پر ایک سوالیہ نشان ہے۔‘‘ عاصم بیگ کا مزید کہنا تھا، ’’آپ کتاب دوستی کا پرچار نصابی کتب کی عدم فراہمی کے ساتھ کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘

اسی طرح پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے صدر افضل بابر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہر سال نئے تعلیمی سیشن کے آغاز کے بعد اسکولوں کو کتابوں کی فراہمی تو چار ماہ بعد تک مکمل کی جاتی ہے، جو باعث افسوس ہے ’لیکن تعلیمی اداروں کے طور پر ہم سے توقع تو 100 فیصد نتائج کی کی جاتی ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’’فی الحال مارکیٹ میں صرف 20 فیصد کتابیں دستیاب ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 31 مارچ تک تمام نصابی کتب شائع کر کے مارکیٹ میں پہنچا دی جاتیں۔‘‘

Pakistan Buchmesse in Islamabad
پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ و ادب کے بقول نیشنل بک فاؤنڈیشن کا یوم کتاب اب ایک روایت میں ڈھل چکا ہےتصویر: DW/I. Jabeen

اس بارے میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر مجیب الرحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پرائیویٹ اسکول آپریٹرز کو پرائیویٹ اسکول ریگولیٹری باڈی کو وقت پر اپنے مطالبات پیش کرنا چاہیے تھے۔ ’لیکن انہوں نے وہاں اپنے کوئی مطالبات پیش نہیں کیے، جس کے بعد انہوں نے پاک چائنا فرینڈشپ سینٹر کے باہر احتجاج کر کے ہمارا ایونٹ خراب کرنے کی کوشش کی۔‘

واضح رہے کہ اس کتاب میلے کے پہلے دن افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے ملکی صدر ممنون حسین کے وہاں پہنچنے سے کچھ دیر پہلے حکام نے وہاں کیا جانے والا احتجاج ختم کرا دیا تھا۔ صدر ممنون نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یومِ کتاب قومی سطح پر کتاب کی اہمیت اور کتب بینی کی افادیت کے اظہار کا دن ہے۔

اسی میلے میں شریک پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ و ادب نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’نیشنل بک فاؤنڈیشن کا یوم کتاب اب ایک روایت میں ڈھل چکا ہے بلکہ اسے ایک علمی و ادبی تہوار کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ یہ اس لیے بہت خوش آئند بات ہے کہ کتاب زندگی کے تمام پہلوؤں کی صورت گر ہے اور انسان کی صدیوں پر محیط ترقی، کتاب ہی کی مرہون منت ہے۔‘