1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کراس کرنٹ‘: فیچر فلم یا ایک پیار بھری نظم

امجد علی16 فروری 2016

جرمن دارالحکومت برلن میں جاری بین الاقوامی فلمی میلے برلینالے کے مقابلے کے شعبے میں شامل اٹھارہ فلموں میں ’کراس کرنٹ‘ بھی شامل ہے، جسے چین کے ایک اہم ترین دریا کی محبت میں کہی جانے والی ایک نظم بھی کہا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hw43
Berlinale 2016 Roter Teppich - Besetzung Crosscurrent
چینی فلم ’کراس کرنٹ‘ کی ٹیم کا برلن فلمی میلے میں ریڈ کارپٹ پر گروپ فوٹوتصویر: picture-alliance/Zuma Press/Z. Fan

چینی ڈائریکٹر ژانگ چاؤ کی اس فلم کو پیر 15 فروری کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ اس فلم میں ہیرو کا کردار چِن ہاؤ نے ادا کیا ہے۔ فلم میں اُس کا کردار ایک شکستہ مال بردار جہاز کے کپتان کا ہے، جو چھ ہزار تین سو کلومیٹر طویل دریائے یانگزے میں رواں دواں ہے۔ اس جہاز پر کوئی پُر اَسرار ساز و سامان ہے، جسے اِس نوجوان کپتان کو منزل تک پہنچانا ہے۔

یہ فلم حقیقی اور غیر حقیقی واقعات کا سنگم ہے۔ آبی جہاز کا کپتان ایک خوبصورت لڑکی کی بھی تلاش میں ہے۔ یہ لڑکی، جو شاید محض ایک تصور بھی ہو سکتی ہے، دریا کے اس سفر کے دوران کئی مرتبہ اُس سے ملنے کے لیے آتی ہے، وہ اکٹھے پیار بھری باتیں بھی کرتے ہیں لیکن وہ پھر منظر سے غائب بھی ہو جایا کرتی ہے۔

Filmstill Crosscurrent
اس آبی جہاز پر کوئی پُر اَسرار ساز و سامان ہے، جسے اِس نوجوان کپتان کو منزل تک پہنچانا ہےتصویر: Internationale Filmfestspiele Berlin 2016

اس دریائی سفر کے دوران یہ نوجوان کپتان شاعری کے ایک مجموعے میں سے پڑھتا بھی رہتا ہے۔ اس مجموعے کو اس آبی جہاز کے ایک مخصوص کیبن میں چھپا کر رکھا گیا ہوتا ہے۔ اس دوران اسکرین پر چینی تاریخ کے مشہور شعراء کے اشعار نمودار ہوتے رہتے ہیں۔

ڈائریکٹر ژانگ چاؤ نے نیوز ایجنسی روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے بتایا:’’تانگ شاہی خاندان اور دیگر اَدوار سے لے کر دورِ حاضر تک چینی شاعری کی ایک کلاسیکی روایت چلی آ رہی ہے، جس میں ان شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں دریائے یانگزے کو موضوع بنایا ہے۔ لیکن چین میں بسنے والوں کے نزدیک اس دریا کی اہمیت ثقافت اور شاعری سے کہیں زیادہ ہے۔ مختلف تاریخی اَدوار میں اس دریا کے آس پاس کا علاقہ سب سے زیادہ خوشحال رہا ہے اور یوں یہ علاقہ ماضی اور حال کے درمیان ایک پُل کا بھی کام دیتا ہے۔‘‘

دورِ حاضر میں اس دریا کے کناروں پر واقع شہروں کی ترقی اور تین گھاٹیوں والے مشہورِ زمانہ ڈیم کی وجہ سے اس کی حیثیت میں بے پناہ تبدیلی آئی ہے۔ اس فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کیسے اس ڈیم کے مکمل ہونے پر بہت سے قدیم تاریخی قصبے اور دیہات زیرِ آب آ کر صفحہٴ ہستی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مِٹ گئے تھے۔

Berlinale Film Crosscurrent
دریائی سفر کے دوران آبی جہاز کا نوجوان کپتان شاعری بھی پڑھتا رہتا ہے اور اپنے راستے میں آنے والے مقامات کے نقشے بھی دیکھتا رہتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/Berlinale

اس فلم میں تین گھاٹیوں والے ڈیم کو ایک استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف قدیم تاریخی علاقے زیرِ آب ہو کر مِٹ گئے بلکہ اس فلم کی کہانی بھی آگے بڑھنے سے رُک جاتی ہے۔ اس فلم کا مقصد استعاراتی زبان میں یہ دکھانا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف ثقافتی اہمیت کے حامل مقامات بدل جاتے ہیں بلکہ محبت کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں