1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی ایک بار پھر آگ اور خون کی لپیٹ میں

3 مئی 2011

جمعہ کی شب ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے سابق رکن سندھ اسمبلی لیاقت قریشی کے قتل کے خلاف یوم سوگ اور ایم کیو ایم کی تنظیمی کمیٹی کے رکن فاروق بیگ کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد شہر میں ایک بار پھر غارتگری کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

https://p.dw.com/p/118Gk
کراچی میں جلتی ہوئی ایک بستصویر: picture-alliance/dpa

پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے کراچی میں گذشتہ ہفتہ پاک بحریہ کی ٹرانسپورٹ بسوں پرہونے والے حملوں کی راکھ ابھی پوری طرح ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی تھی کہ ٹارگیٹ کلنگ کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا۔

Pakistan Unruhen in Karachi nach Absetzung von Obersten Richter
پرتشدد مظاہروں کے بعد پولیس کی اندھا دھند کارروائی کا ایک نمونہتصویر: AP

ماضی کی طرح اس بار بھی ٹارگیٹ کلرز کا نشانہ ہے کراچی کی سب سے مقبول جماعت ایم کیو ایم ہے۔ جمعہ کی شب کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں نامعلوم موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے سابق رکن سندھ اسمبلی لیاقت قریشی کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر کے انہیں موقع پر ہی ہلاک کردیا۔

ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جانے والے لیاقت قریشی کے قتل پر عوامی سطح پر سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا اور یکم مئی کو پرامن سوگ کی اپیل کی گئی۔ پرامن سوگ کے دوران شہر کے مختلف علاقوں میں متعدد مسافر بسوں سمیت تیرہ گاڑیاں نذر آتش کردی گئیں۔ایم کیو ایم نے یوم سوگ کے موقع پر گاڑیوں کو آگ لگائے جانے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے پرامن احتجاج کوشرپسندوں کی سازش قرار دیا۔

یکم مئی کے واقعات کے بعد اگلے روز بھی کراچی کے شہریوں کی زندگی خوف و دہشت میں مبتلا رہی۔ اس دوران کورنگی کے علاقے میں مسلح افراد نے ایم کیو ایم کے ایک اور سینئر رکن فاروق بیگ کو نشانہ بنایا۔

Selbstmordattentat in Karachi, Pakistan
کراچی شہر بد امنی کی آگ میں جل رہا ہےتصویر: AP

فاروق بیگ کے قتل کے بعد تو شہر میں لاقانونیت کا دور دورہ شروع ہو گیا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سڑکوں سے غائب ہوگئے۔ اس صورت حال میں دہشت گردوں نے دن دھاڑے مزید پانچ افراد کو اپنی فائرنگ کا نشانہ بنایا جب کہ دیگر سترہ شدید زخمی حالت میں ہیں۔ انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ لوگوں کو مالی نقصان ان کی مزید ستائیس گاڑیاں بھی جلاکر پہنچایا گیا۔ بعد میں پولیس نے اندھا دھند پکڑ دھکڑ شروع کردی۔

قتل و غارت اور جلاو گھیراو سے خوف زدہ شہری ڈرتے ڈرتے گھروں سے نکلے ضرور لیکن ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں تھی۔کروڑوں روپوں کی بسیں راکھ کا ڈھیر بنتے دیکھنے والے ٹرانسپورٹ اپنی مزید اڑیاں سڑکوں پر لانے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی تاجر حضرات نے عدم تحفظ کے باعث دکانیں کھولیں۔

کراچی ٹرانپسورٹ اتحاد کے صدر ارشاد بخاری کہتے ہیں ’’ اس شہر میں حکومت نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہ گئی، جس کا جب جی چاھتا ہے، انکی بسوں کو آگ لگادیتا ہے، صرف ایک سال کے دوران تینتالیس کروڈ کی بسوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا۔‘‘

پولیس حکام کے مطابق پولیس نے متعدد ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیا جن میں سے اکثریت سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتی ہے لیکن حکومتی مجبوریوں کے باعث ان کا سیاسی جماعتوں سے تعلق ظٓاہر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس وابستگی کی وجہ سےتفتیشی عمل بھی مناسب انداز میں مکمل نہیں ہو سکتا۔

مبصرین کے مطابق کراچی میں امن و امان قائم کرنا کسی ایک فرد یا سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں اور اس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو یکجا ہوکر شہر کے مسائل حل کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں