1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی دہشت گردی کے بعد سکیورٹی الرٹس مشکوک

12 نومبر 2010

کراچی میں مذہبی انتہاپسندوں کے خلاف کام کرنے والی پولیس کے تفتیشی مرکز پر ہونے والے خودکش حملے نے ایک بار بھر شہر کی فضا کو دہشت زدہ کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Q7S8
کراچی: 8 برسوں میں 8 خود کُش حملےتصویر: AP

اس کے ساتھ ساتھ شہر کے ہائی سکیورٹی زون میں واقع اس دفتر پر اس دہشت گردانہ حملے نے تمام سکیورٹی الرٹس کی قلعی بھی کھول دی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کی شمولیت کے بعد کراچی میں دہشت گردی کا آغاز شیرٹن ہوٹل کے سامنے فرانسیسی انجینئرز کی بس پر ہونے والے خود کش حملے سے ہوا تھا، جس میں گیارہ فرانسیسیوں سیمت چودہ افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں کراچی شہر کے باسی آٹھ خودکش حملوں سیمت دہشت گردی کی درجنوں وارداتوں کا سامنا کر چکے ہیں۔

Unruhen in Pakistan
کراچی میں ہنگامے آئے روز کا معمولتصویر: AP

حکومت کی جانب سے مختلف اوقات میں دہشت گردوں کی گرفتاری سیمت مختلف اقدامات کے دعوے سامنے آتے رہتے ہیں تاہم گیارہ نومبر کی رات سندھ پولیس کے کرائمز انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کی عمارت پر ہونے والے حملے نے جہاں ایک جانب شہر میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ہونے والی تباہی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئے، وہیں کراچی پولیس کی جانب سے گورنر ہاؤس اور چیف منسٹر ہاؤس سیمت اہم عمارتوں اور تنصیبات کی حفاظت کے لئے قائم کئے گئے ہائی سکیورٹی زون میں اس حملے نے اس سکیورٹی زون کی حقیقت بھی سب پر واضح کر دی ہے۔

Pakistan Gewalt Karachi
سکیورٹی کے باوجود دہشتگردانہ حملےتصویر: AP

سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا پھر بھی بضد ہیں کہ دہشت گرد اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔ سیاسی مخالفین کے غم میں مبتلا ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے برعکس سندھ پولیس کے سربراہ صلاح الدین بابر خٹک پھر بھی قدرے حقیقت پسندی سے کام لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن وہ بھی بظاہر ’تھوڑے سچ‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔

دھماکے میں جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں کے نماز جنازہ میں شرکت کے بعد آئی جی سندھ پولیس کا کہنا تھا کہ حملے کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگ موجود ہے۔

تمام تر دعووں کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ پولیس کو نہ تو حملے میں استعمال کی گئی گاڑی کے مالک کا کوئی سراغ مل سکا ہے اور نہ ہی اس حملے میں ملوث ملزمان کا کوئی نشان۔ تفتیشی حکام صرف قیاس آرائیوں کی بنیاد پر مذہبی انتہا پسندوں کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔

اگر واقعی یہ حملہ انتہا پسندوں کی جانب سے کیا گیا ہے تو یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ انتہا پسند نہ صرف کراچی میں موجود ہیں بلکہ اس قدر منظم بھی ہیں کہ اس طرح کے حملوں کے منصوبوں کو کامیابی سے عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔

رپورٹ: رفعت سعید

ادارت: عصمت جبیں