1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں ٹارگٹ کلنگ: قاتل کون ہیں؟

26 اکتوبر 2010

پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کہلانے والے شہر کراچی میں ایک ہفتے کی خونریزی، سیاسی، لسانی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر مخالفین کو ہدف بنا کرقتل کرنےکی وارداتوں میں 100افراد کی ہلاکت کے بعد اب شہری زندگی معمول پر آتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/PoDA
کراچی میں ڈیوٹی پر موجود رینجرز کا ایک اہلکارتصویر: AP

گو کراچی میں ابھی بھی روزانہ چار، پانچ افراد کو اسی انداز میں قتل کیا جا رہا ہے، تاہم حالیہ وارداتوں کا طریقہء کار گزشتہ ہفتے ہونے والی وارداتوں سے ذرا مختلف ہے۔ ان وارداتوں میں پہلے اغواءکیا جاتا ہے، پھر شہر کے کسی بھی سنسان علاقے سے ایک دو روز بعد مغویوں کی لاشیں مل جاتی ہیں۔ قتل کئے گئے افراد میں بعض کی سیاسی وابستگیاں بھی ہیں مگر مرنے والوں میں شہر میں بسنے والے سارے ہی لسانی گروپں کے لوگ شامل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ قاتلوں کو یہ ہدف صرف شہر کا امن برباد کرنے کے لئے دیا گیا ہے۔

شہری پولیس رابطہ کمیٹی کے سابق سربراہ جمیل یوسف کا کہنا ہے کہ شہر میں ہدف بنا کر قتل کرنے والے کون ہیں، اس سوال کا جواب حکومت سمیت تمام خفیہ ادارے جانتے ہیں۔

Pakistan Gewalt Karachi Flash-Galerie
شہر میں موٹرسائیکلوں پر گشت کرتے ہوئے رینجرزتصویر: AP

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس بھی شواہد موجود ہیں۔ مگر صرف سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے ان سیاسی اور مافیا گروپوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی۔ جمیل یوسف کا کہنا ہے کہ کراچی شہرمیں اصل جھگڑا حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتوں این اے پی اور ایم کیو ایم کے مابین ہے، اوراب لیاری کے جرائم پیشہ گروہ بھی اس مسلح تصادم میں شامل ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ شہر میں سرگرم مافیا طرز کے مختلف گروپوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اشتراک عمل کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مربوط کارروائی ممکن نہیں۔

لہٰذا شہر میں ایک دوسرے سے نبرد آزما یہ گروہ مالی فوائد کے لئے مشترکہ طور پر شہر میں خونریزی اور ہدف بنا کر قتل کرنے کی وارداتوں کو لینڈ مافیا اور بھتہ مافیا کی سازش قرار دیتے ہیں، حالانکہ مبصرین کے بقول شہریوں اور تاجروں سے بھتہ وصول کرنے والوں کو سیاسی گروپوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

Pakistan Innenminister Rehman Malik
رحمان ملک کے بیانات کے بعد شہر میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ تھم تو جاتا ہے مگر عارضی طور پرتصویر: Abdul Sabooh

ادھر وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے شروع ہوتے ہی کراچی آ کر روایتی طور پر امن و امان کے حوالے سے اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ رحمان ملک کے بیانات اور دعووں کے بعد شہر میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ تھم تو جاتا ہے مگر عارضی طور پر۔ یہی وجہ ہے کہ شہر کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایم کیو ایم کے علاوہ حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتیں کراچی میں فوجی آپریشن کی حامی ہیں۔

اے این پی سندھ کے سیکریٹری جنرل امین خٹک کا کہنا ہے کہ فوج کو جرائم پیشہ افراد اور لینڈ مافیا کے خلاف کارروائی کے لئے طلب کرنا ہوگا۔ مگر دوسری جانب ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن اور سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ فوج کو طلب ضرور کریں، مگر پہلے رینجرز اور پولیس کو استعمال کر کے دیکھیں کیونکہ اگر فوج بھی ناکام ہوگئی تو کیا نیٹو فورسز کو بلانا پڑے گا؟

سیاسی جماعتوں کے بیانات اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ کراچی میں اصل جھگڑا اختیارات، شہر پر حکمرانی اور شہر میں پرائیویٹ اور سرکاری زمینوں پر قبضے سے حاصل ہونے والی آمدنی کی تقسیم کا ہے۔ بھتے اور قبضے سے حاصل ہونے والی یہ رقم کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں میں بنتی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ان رقوم کے حصول کے لئے ہی سیاسی جماعتوں کو ایسے مسلح گروہوں کی ضرورت ہوتی ہے، جوشہریوں کو ڈرا دھمکا کر اور انہیں اغواء کر کے رقوم کی وصولی کو یقینی بنائیں۔ کوئی انہیں لینڈ مافیا کہے، بھتہ مافیا یہ پھر لیاری گینگ وار، مگر ان تمام گروہوں کے تانے بانے مبصرین کے بقول حکمران جماعت اور اس کی اتحادی پارٹیوں سے ہی ملتے ہیں۔ شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی کو دہشت گردوں کے نرغے سے آزاد کروانے کے لئے بلا امتیاز کارروائی کر کے ہی شہریوں کو ان دہشت گردوں، بھتہ مافیا، لینڈ مافیا اور ’انڈر ورلڈ‘ سے نجات دلوائی جا سکتی ہے۔

رپورٹ: رفعت سعید

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں