1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں پھر ٹارگٹ کلنگ، دو دن میں 20 ہلاک

14 جنوری 2011

کراچی میں گزشتہ دو روز کے دوران فائرنگ کے مختلف واقعات میں ایک نجی چینل کے رپورٹر ولی خان بابر سمیت بیس افراد کو ہدف بنا کر قتل کیا جاچکا ہے، صحافی برادری پاکستان بھر میں ولی خان بابر کے قتل پر یوم سیاہ منارہی ہے۔

https://p.dw.com/p/zxWm
تصویر: AP

کراچی شہر میں دہشت گردی کی تازہ لہر کا آغاز رواں ہفتے کے دوران ہوا جس میں شہر کے مختلف علاقوں میں سیاسی اور لسانی جماعتوں کے کارکنوں کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا، لیکن گزشتہ دو روز کے دوران اس لہر میں تیزی آئی اور بیس افراد قتل کردیے گئے۔

شہر میں رات گئے فائرنگ کے واقعات میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بشیر خان پر بھی حملہ کیا گیا جس سے ان کا محافظ جاں بحق اور وہ خود زخمی ہوگئے۔ بشیر خان پر فائرنگ کے بعد ناظم آباد میں کٹی پہاڑی کے مقام پر بسوں پر بھی فائرنگ کی گئی جس سے متعدد افراد زخمی ہوگئے۔

Pakistan Gewalt Karachi Flash-Galerie
"کراچی کا امن برباد کرنے والوں کو پولیس اور نیم فوجی رینجرز جانتے ہیں مگر ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے گریزاں ہیں." عوامی حلقےتصویر: AP

کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات وقفے وقفے سے ہوتے ہیں لیکن پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی خفیہ رپورٹوں میں ان واقعات کی ذمہ داری شہر میں سرگرم سیاسی جماعتوں پر عائد کرتے ہیں۔ مگر ان اداروں کی نشاندہی کے باوجود حکام سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی سے گریزاں رہتی ہے۔ گزشتہ دنوں صوبائی وزیرداخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ 'ٹارگٹ کلرز' کو جانتے ہیں۔

کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم عروج پر ہیں جس کی وجہ سے شہری اور تجارتی حلقے اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔

قانون نافذکرنے والے اداروں کی بے بسی اور ناکامی کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ رات نجی ٹیلی ویژن کے رپورٹر کو شہر کے مصروف علاقے لیاقت آباد میں پولیس اسٹیشن کے عین سامنے گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔

حکومت مقتول صحافی ولی خان بابر کے قاتلوں کو جلد گرفتار کرنے اور اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرنے کے بلند و بانگ دعوے کررہی ہے مگر عوام کی رائے میں یہ دعوے محض روایتی ہے ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ہر بڑے واقعے کے بعد حکومت اسی قسم کے بیانات دیتی ہے۔

صحافی کے قتل پر پورے ملک میں یوم سیاہ اور احتجاجی ریلیاں منعقد کی جارہی ہیں، تمام ہی سیاسی جماعتوں نے اس قتل کی مذمت کی ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ عشروں میں کراچی شہر میں ہدف بنا کرقتل کیے گئے ہزاروں افرادکے قاتلوں کو کب کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا جو جرم بے گناہی میں قتل کردیے گئے۔

تاجروں اورصنعت کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کی معیشت میں اہمیت کے حامل شہر کراچی کا امن برباد کرنے والوں کو پولیس اور نیم فوجی رینجرز جانتے ہیں مگر ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے گریزاں ہیں. ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں اپنے مفاد اور اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے مفاہمت کی سیاست پر عمل پیراہوسکتے ہیں تو پھر ٹارگٹ کلنگ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کسی ایک نکتہ پر متفق ہونے پر تیار کیوں نہیں؟

مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی شہر میں بھتہ مافیا، لینڈمافیا، ڈرگ مافیا اور انڈر ورلڈ کے کئی گروپ کام کررہے ہیں جنہیں مفادات کے حصول کے لیے سیاسی گروپوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

ان تمام واقعات کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کراچی شہر، جس کی شناخت ماضی میں علم و دانش، ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کی وجہ سے ہوتی تھی مگر اب اس غریب پرور شہر کی شناخت دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے ہوتی ہے۔ عوامی حلقوں نے شہر کی تشویشناک صورتحال کو حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی اور پولیس میں بے پناہ سیاسی بھرتیوں کوٹھہرایا ہے۔

رپورٹ: رفعت سعید

ادارت: افسراعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں