1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی: نئی سیاسی اُکھاڑ پچھاڑ کا شکار

16 نومبر 2017

سندھ کے شہری علاقوں کی اکثریتی نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ 35 سالہ تاریخ میں تیسری مرتبہ تشکیل نو کے عمل سے گزر رہی ہے۔ کراچی میں سیاسی اُکھاڑ پچھاڑ اور اس کے پس منظر پر رفعت سعید کا خصوصی تجزیہ۔

https://p.dw.com/p/2nkTY
Fractions of MQM Pakistan
تصویر: PSP & MQM

مبصرین کے مطابق چار ٹکڑوں میں تقسیم جماعت کے سب سے بڑے دھڑے کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اندرونی اختلافات اور بیرونی دباؤ کے باوجود فی الحال پارٹی کو متحد رکھنے میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں۔

1992ء سے 2017ء تک مہاجر اور متحدہ قومی موومٹ اور پھر پاک سرزمین پارٹی، ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان میں تقسیم در تقسیم ہونے والی ایم کیو ایم کے متعلق عام تاثر یہی ہے کہ اسے جنرل ضیاء کے دور میں ایجنسیوں نے سندھ کے شہری علاقوں میں پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے اثر و رسوخ کو کرنے کے لیے بنایا تھا۔ ایم کیوایم پر یہ بھی الزام ہے کہ اس کا ابتدا سے ہی وجود نفرت، تشدد، محاذ آرائی اور تصادم کی علامت رہا ہے اور ہر بار اقتدار میں آتے ہی اس جماعت کے سرکردہ رہنماؤں سمیت دیگر افراد عوامی مسائل کے حل کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے لگتے ہیں لہٰذا اقتدار سے نکلتے ہی اختلافات تصادم کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور پارٹی دھڑے بندی کا شکار ہوجاتی ہے۔

Farooq Sattar
چار ٹکڑوں میں تقسیم جماعت کے سب سے بڑے دھڑے کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اندرونی اختلافات اور بیرونی دباؤ کے باوجود فی الحال پارٹی کو متحد رکھنے میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیںتصویر: Raffat Saeed

اس مرتبہ 2013ء کے بعد پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے دو رہنما سابق میئر کراچی مصطفٰی کمال اور انیس قائم خانی نے مارچ 2016ء میں پاک سرزمین پارٹی کے نام سے نئی جماعت کی بنیاد رکھ دی اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان اور پاکستان سے باہر موجود کئی سرکردہ رہنما اور اراکین اسمبلی پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہوتے چلے گئے مگر بائیس اگست کو الطاف حسین کی جانب سے پاکستان مخالف تقریر کے بعد پاکستان میں باقی ماندہ ایم کیو ایم نے ان سے علیحدگی میں ہی عافیت جانی اور ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے متحدہ ہوگئے مگر پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری رہا اور ڈپٹی میئر کراچی ارشد ووہرہ بھی پاک سرزمین پارٹی میں چلے گئے۔

سینیئر صحافی کے آر فاروقی کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں ایجنسیوں کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر ایم کیو ایم اور ایجنسیاں تو لازم و ملزوم ہیں۔ 1992ء کے آپریشن کے بعد عظیم طارق بھی ایجنسیوں کی کلیئرنس سے ہی منظر عام پر آئے تھے۔ پہلے یہ کام آئی بی کی سطح پر ہوا کرتا تھا لیکن ملکی اور غیر ملکی حالات میں تبدیلی کے باعث اب زیادہ با اختیار ادارے اس کھیل میں شامل ہوگئے ہیں۔

ماضی قریب میں ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی کےدرمیان اچانک ایک روزہ اتحاد اور پھر اختلاف کو تجزیہ نگار اسی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ مگر ان کی رائے میں ڈاکٹر فاروق ستار زیادہ تجربے کار سیاستدان کے طور پر سامنے آئے ہیں اور مصطفٰی کمال نے ڈیڑھ سال میں ایم کیو ایم کی مقبولیت میں جو ڈینٹ ڈالا تھا وہ فاروق ستار نے ڈیڑھ دن میں بھر دیا۔ فاروق ستار نے ایک تیر سے کئی شکار کر لیے۔ اندرونی اختلافات اور کارکنوں کی شکایات اورتحفظات کو سیاست سے کنارہ کشی کے اعلان سے وقتی نہیں تو جزوی طور پر ضرور ختم کردیا ہے۔

دوسری جانب پی ایس پی سمیت بیرونی دباؤ سے بننے والی قوتوں کو بھی پیغام دیا ہے کہ ایم کیو ایم کسی فرد یا گروہ کی نہیں تمام مہاجروں کی ہے اور اسے ختم کرنا کسی فرد یا گروہ کے بس میں نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نواز سمیت دیگر بڑی سیاسی جماعتوں نے ایم کیو ایم کی خاموش حمایت کی۔

سینیئر تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں، ’’اسٹیبلشمنٹ کی سوچ یہ ہے کہ کراچی کی سیاست میں ایم کیو ایم لندن کا کردار مکمل طور پر ختم ہونا چاھیے۔ ایم کیو ایم لندن اور الطاف حسین دنیا بھرمیں فوج کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کر رہے ہیں، لہٰذا یہ کسی صورت ملکی سیاست میں قبول نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ الطاف حسین کے بھارتی خفیہ ادارے سے بھی قریبی تعلقات ہیں جس کے شواہد ان کے پاس ہیں۔ پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کو ایک نام پر متفق ہونا ضروری ہے تاکہ آئندہ الیکشن میں الطاف حسین کا مقابلہ کیا جاسکے۔ دوسرے جانب پی ایس پی قیادت ایم کیو ایم کے نام کو قتل، دہشت گردی، بھتہ خوری اور چائنا کٹنگ سے منسلک دیکھتی ہے۔ لہٰذا ان کی رائے میں ایم کیو ایم کو ختم کردینا ضروری ہے۔‘‘

Pakistani liberal Political party MQM's chief Altaf Hussain exclusively spoke to DW's Atif Tauqeer in London
’’ایم کیو ایم لندن اور الطاف حسین دنیا بھرمیں فوج کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کر رہے ہیں‘‘تصویر: DW/A. Tauqueer

ایم کیو ایم کے تیسرے دھڑے کے سربراہ آفاق احمد بھی کہہ چکے ہیں کہ ان پر بھی بعض طاقتور حلقوں کی جانب سے مہاجر قومی موومنٹ ختم کر کے دیگر گروہوں کے ساتھ مل جانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کی سیاست مہاجروں کے لیے ہے، جو کوئی اس نام پر سیاست کرے گا وہ اس کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے مستقبل میں کسی ایسے سیاسی اتحاد کا حصہ ہونے کا تو اشارہ دیا مگر کسی دوسری جماعت کے ساتھ انصمام کو خارج الامکان قرار دیا۔

ان تمام حالات کی روشنی میں تبصرہ نگار کراچی کی سیاست کو آئندہ انتخابات کے لیے مرکز نگاہ قرار دیتے ہیں۔ ایم کیو ایم مہاجر نعرے کے ساتھ انتخاب لڑے گی جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کا نعرے ایم کیو ایم دھڑوں کی آپسی چپقلش سے فائد اٹھانے کی بھرپور کوشش کریں گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید