1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی: 76 ہلاک شُدگان میں زیادہ تر عام شہری

5 اگست 2010

دو سیا سی گروپوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد شہر میں صرف تین دنوں میں76 افراد کوہدف بنا کر قتل کیا جا چکا ہے جبکہ نامعلوم حملہ آوروں نے کروڑوں روپے کی املاک کو دیدہ دلیری سے نذر آتش کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/OcbH
کراچی: درجنوں گاڑیاں نذرِ آتشتصویر: AP

حکومت کی حلیف جماعت ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی کی ہلاکت کے بعد آج چوتھے روز بھی شہر میں کشیدگی ہے۔ اگرچہ رفتہ رفتہ شہری زندگی معمول پر آتی دکھائی دیتی ہے لیکن گزشتہ چند روز کے ہولناک واقعات کے بعد روشنیوں کا یہ شہر اب دن کے اوقات میں ویرانی اور رات کو خوف و ہراس کا منظر پیش کر رہا ہے۔

چند روز قبل شہر کے بازاروں اور ریستورانوں میں نظر آنے والا رش اب ہسپتالوں اور مردہ خانوں کے باہر نظر آتا ہے۔ مرنے والوں کے عزیزوں کی گفتگو غم اور کرب سے لبریز ہے۔ حالیہ دنوں میں مرنے والوں کی اکثریت کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں چوکیدار، شہر کی سڑکوں پر سبزی فروخت کرنے والے اور کچرا چننے والے شامل ہیں۔ یہ سب لوگ عروس البلاد کراچی میں روزی کمانے کے لئے آئے مگر اب ان کی لاشیں اُن کے آبائی شہروں کو بھیجی جا رہی ہیں۔

Karachi Unruhen Mord Politiker
روشنیوں کا شہر کراچی اب دن کے وقت ویرانی کا منظر پیش کرتا ہےتصویر: AP

ایدھی سرد خانے کے باہر اپنے عزیز کی لاش وصول کرنے والے ناصر خان کا کہنا تھا کہ اس کا بھائی ٹیکسی چلاتا تھا اور اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ وہ روز کما کر دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتا تھا۔ پیر کی شام بھی وہ اِسی مقصد کے لئے گھر سے نکلا تھا لیکن منگل کی صبح ٹیلی فون پر اطلاع ملی کہ اس کی لاش جناح اسپتال میں پڑی ہے:’’یہ سن کر ہم پر کیا بیتی ہو گی، اس کا آپ کو اندازہ نہیں ہو سکتا۔‘‘ ناصر نے بتایا کہ وہ پختون ضرور ہیں مگر ان کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیا میرے بھائی کو پختون ہونے کی سزا دی گئی ہے ۔‘‘

ایک ایسے وقت میں، جب کراچی جل رہا تھا، مختلف اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے ساتھ ملاقاتوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید ہسپتال کے عملے کی دکھ اور افسوس کی حس ہی ختم ہو چکی ہے۔ سول ہسپتال کے پولیس سرجن ڈاکٹر کرار نے کہا کہ ایک ذی شعورانسان کی حیثیت سے پوسٹ مارٹم کے وقت انہیں دکھ اور تکلیف محسوس ہوتی ہے مگر کیا کریں، کام کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے۔

Unruhen Karachi Mord Politiker Pakistan
نیم فوجی دَستوں کو بلوائیوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کے حکم کے باوجود قتل و غارت گری کا بازار گزشتہ رات بھی گرم رہاتصویر: AP

حالیہ ہنگاموں کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اب شہر کے ہسپتال بھی زبان کی بنیاد پر تقسیم ہو چکے ہیں۔ پختون اکثریتی علاقے قصبہ کالونی کے اطراف فائرنگ سے زخمی ہونے والے دو مزدوروں کے ورثاء کے مطابق زخمیوں کو اس لئے عباسی شہید ہسپتال نہیں لے جایا گیا کیونکہ وہاں متحدہ کا اثر و رسوخ ہے۔ بالآخر ان زخمیوں کو جناح ہسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گئے۔ یہی اس غریب پرور شہر کی سفاکی ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے شہر میں فساد کرنے والوں کوخوب اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن انہیں کبھی تیسری قوت، کبھی طالبان اور کبھی شرپسندوں کا نام دے دیا جاتا ہے۔ قاتلوں کی گرفتاری تو دور کی بات ہے، حکومت مصلحتوں کی بناء پر اصل قاتلوں کا نام تک لینے سے بھی گریزاں ہے۔

وفاقی اور صوبائی وزرائے داخلہ کی طرف سے شرپسندوں اور بلوائیوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کے احکامات تو ضرورجاری کئے گئے ہیں مگر سیاسی جماعتوں سے وابستہ قاتلوں نے حکومت کی اس دھمکی کا جواب گزشتہ رات 18 بے گناہ افراد کو ہدف بنا کر دیا۔

ماضی کی طرح وفاقی وزیرداخلہ رحمان ملک ایک بار پھر کراچی میں سلگتی آگ کو بجھانے اور ہدف بنا کر قتل کرنے والے عناصر کی سرکوبی کے لئے کسی نئی تدبیر کا ہدف لئے کراچی پہنچ رہے ہیں۔

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی

ادارت: امجد علی