1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرد علیحدگی پسندوں کے شہر میں ترک عسکری کارروائیاں بند

عاطف توقیر9 مارچ 2016

ترک فوج نے کرد اکثریتی شہر Sur میں علیحدگی پسندوں کے خلاف عسکری کارروائیاں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تشویش ظاہر کی جا رہی تھی کہ فوج اور جنگجوؤں کی ان جھڑپوں میں عام شہریوں کو بھاری جانی نقصان کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IA51
Türkei Diyarbakir Militäroffensive gegen Kurden
تصویر: picture-alliance/abaca/M. Coban

ترک سرکاری خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق اس علاقے میں ترک فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان کئی ماہ سے جاری جھڑپوں اور حملوں میں ایک طرف تو عام شہری ہلاکتوں میں اضافے کے خطرات ہیں اور ساتھ ہی وہاں موجود قدیم ثقافتی ورثے کی تباہی کے خدشات بھی موجود ہیں۔

ترک وزیرداخلہ ایفکان الا نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے کردستان ورکرز پارٹی کے عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن مکمل کر لیا ہے۔ انہوں نے تاہم کہا کہ سکیورٹی فورسز SUR شہر میں ممکنہ دھماکا خیز مواد کی تلاش اور دیگر قریبی علاقوں میں کرفیو کے نفاذ کا سلسلہ جاری رکھیں گی۔ ترک فوج کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سُر شہر میں کی گئی عسکری کارروائیوں میں مجموعی طور پر 271 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔

Türkei Diyarbakir
عسکری آپریشن کی وجہ سے عام شہری زندگی شدید متاثر ہوئی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ترکی کے جنوب مشرقی علاقوں میں متعدد مقامات پر گزشتہ برس اگست سے 24 گھنٹے کرفیو کا نفاذ رہا ہے، جس کا مقصد کرد ورکرز پارٹی کے عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن میں سکیورٹی فورسز کو سہولت مہیا کرنا بتایا گیا تھا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ اس عسکری کارروائی کے ذریعے عسکریت پسندوں کی آماج گاہوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے، خندقیں اور باردوی مواد تباہ کرنے اور مقامی علاقوں کو تحفظ فراہم کرنے جیسے اقدامات کیے گئے ہیں۔

تاہم دوسری جانب کرد اکثریتی علاقوں میں ان عسکری کارروائیوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خدشات بڑھے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کرفیو کے حامل علاقوں میں کم از کم 224 افراد سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہوئے ہیں، جب کہ ہزاروں افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔

شامی سرحد کے قریب واقع کرد اکثریتی علاقے ایدل میں جاری عسکری آپریشن بھی گزشتہ روز مکمل کر لینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں دیگر دو مقامات پر فوجی کارروائیاں کی جا سکتی ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ ترکی، امریکا اور یورپی یونین کرد ورکرز پارٹی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ گزشتہ برس جولائی میں ترکی نے اس تنظیم کے ساتھ امن عمل ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی اس تنظیم سے وابستہ عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کا بھی اعلان کیا تھا۔