1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کس ملک میں پناہ لیں؟ تارکین وطن خود فیصلہ نہیں کر سکتے

شمشیر حیدر14 مارچ 2016

آسٹریا کے چانسلر ویرنر فیمان کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک کو تارکین وطن پر واضح کر دینا چاہیے کہ وہ سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے کے لیے اپنی مرضی سے کسی ملک کا انتخاب نہیں کر سکتے۔

https://p.dw.com/p/1ID57
Griechenland Flüchtlinge suchen nach Alternativwegen aus dem Lager in Idomeni
تصویر: Reuters/S. Nenov

خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹوں کے مطابق آسٹرین چانسلر فیمان کا کہنا ہے کہ یورپ میں پناہ کی تلاش میں آنے والے اپنی مرضی سے کسی یورپی ملک کا انتخاب نہیں کر سکتے اور یورپی یونین کو یہ بات واضح انداز میں کرنا چاہیے۔

درجنوں پاکستانی تارکین وطن کی یونان سے ترکی ملک بدری

رضاکارانہ طور پر واپس جاؤ، بائیس سو یورو ملیں گے

فیمان نے یورپی یونین سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پاکستان اور مراکش جیسے ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ اس لیے یونین کو ان ممالک کے ساتھ مذاکرات کر کے یقینی بنانا چاہیے کہ وہ اپنی شہریوں کی واپسی میں تعاون کریں۔

آسٹریائی چانسلر نے تارکین وطن کی سالانہ حد مقرر کرنے کے اپنے فیصلے کا بھی دفاع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آسٹریا ایک خاص حد تک ہی مہاجرین کو پناہ دے سکتا ہے۔

مقدونیہ کی سرحد پر پھنسے مہاجرین، انسانی المیے کا خطرہ بڑھتا ہوا

جرمن چانسلر انگیلا میرکل پر تنقید کرتے ہوئے فیمان کا کہنا تھا کہ میرکل کو بھی جرمنی میں مہاجرین کی حد مقرر کرنا چاہیے۔ جرمن اخبار ’ڈی ویلٹ‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں فیمان نے کہا، ’’ہمیں وضاحت کرنا ہو گی تاکہ کوئی بھی ایسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو سکے کہ جرمنی پہنچنے والے ہر تارک وطن کو پناہ دی جا رہی ہے۔‘‘

ویانا حکومت نے شمالی افریقی ممالک اور افغانستان کے بعد تارکین وطن کی حوصلہ شکنی کے لیے جلد ہی پاکستان میں بھی تشہیری مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آسٹریا کی وزارت خارجہ کے مطابق اشتہاری مہم کے دوران پاکستانی شہریوں کو یہ بتایا جائے گا کہ آسٹریا میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے قوانین مزید سخت ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب ڈچ حکومت کے مطابق رواں برس کے دوران ہالینڈ میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والے ایک چوتھائی تارکین وطن کا تعلق ’محفوظ‘ ممالک سے ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں ہالینڈ میں سیاسی پناہ دیے جانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

سترہ ملین نفوس پر مشتمل اس یورپی ملک میں گزشتہ برس کے دوران تقریباﹰ 60 ہزار نئے تارکین وطن پناہ کی تلاش میں پہنچے تھے۔ ڈچ حکام اس بحرانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ’محفوظ ممالک‘ سمجھے جانے والے ملکون سے آنے والے پناہ گزینوں کی درخواستوں پر جلد از جلد فیصلے کر رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید