1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیری عوام اور باغیوں کی یکساں سوچ بھارت کے لیے ’تباہ کن‘

امتیاز احمد26 اگست 2016

بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ عوام اور باغی ایک ہی صفحے پر اور متحد نظر آ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ صورت حال بھارت کے لیے ’تباہ کن‘ ثابت ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1JqC4
Kashmir Portest Indien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M.Khan

عبدالشکور کے سیب کے باغات ہیں۔ سرخ اور گلابی رنگ کے کشمیری سیب پک چکے ہیں لیکن شوپیاں کے رہائشی عبدالشکور اس مرتبہ پھل درختوں سے اتارنا ہی نہیں چاہتے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری جھڑپوں کو تقریبا پچاس دن ہو گئے ہیں اور ان کے اثرات وہاں زندگی کے ہر شعبے پر مرتب ہو رہے ہیں۔

عبدالشکور کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم تمام کاشت کاروں نے ایک اجلاس میں یہ وعدہ کیا ہے کہ رواں برس ہم فصلوں کی کٹائی نہیں کریں گے اور اس کا مقصد علیحدگی پسندوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہے۔‘‘

سرخ اور گلابی سیبوں کو اس سرسبز اور خوبصورت وادی کی زرخیز زمین کی علامت سمجھا جاتا ہے اور یہ اس خطے کی سب سے مشہور برآمدات میں سے ایک ہیں۔

Indien Tag der Unabhängigkeit am 15. August 2016
دریں اثناء حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کے باوجود حالیہ دنوں میں ہزاروں دستے اس علاقے میں تعینات کر دیے گئے ہیںتصویر: UNI

برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے جاری جھڑپوں کے دوران سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 66 کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ کرفیو کے باوجود مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران دو بھارتی سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں اور سن 2010 کے بعد اس علاقے میں ہونے والے یہ شدید ترین مظاہرے ہیں۔ اسکول، دکانیں اور بینک وغیرہ بند ہیں جبکہ معاشی سرگرمیاں بھی مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔

گزشتہ دنوں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کو ’جنت‘ سے تشبیح دی تھی لیکن وہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ خود کو ’جیل میں قید‘ محسوس کرتے ہیں۔ جمعرات کو بھارتی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ کشمیریوں کے ’درد سے آگاہ‘ ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنے ایک انتہائی قریبی عہدیدار کو کشمیر کے دارالحکومت روانہ کیا ہے۔ سری نگر پہنچنے کے بعد وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا، ’’یہ نہ کہیے کہ ہم صورتحال سے آگاہ نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ مسئلہ کہاں ہے اور ہم اس کا حل بھی تلاش کر لیں گے۔‘‘

مودی حکومت کہتی ہے کہ یہ پاکستان ہے، جو علیحدگی پسندوں کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ دوسری جانب بھارت نے کشمیریوں کو زیادہ خود مختاری کی ضمانت فراہم کی تھی لیکن مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی باضابطہ طور پر اُس آئینی شق کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کا یہ موقف کشیدگی کا باعث بن رہا ہے۔

کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا اس بارے میں کہنا تھا، ’’نئی دہلی حکومت زیادہ خود مختاری فراہم کرنے کے اپنے وعدے سے مکر رہی ہے۔‘‘

Pakistan weitere Proteste in Srinagar
عمر عبداللہ کا کہنا تھا کی فوجی ہتھکنڈوں سے اس بحران میں صرف اور صرف اضافہ ہی ہوگاتصویر: Reuters/D. Ismail

دریں اثناء حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کے باوجود حالیہ دنوں میں ہزاروں دستے اس علاقے میں تعینات کر دیے گئے ہیں۔ ایک سینیئر فوجی افسرکا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’سیاسی آغاز کے بجائے سب کچھ ہمارے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے اور جو ہم کرتے ہیں اس کے اپنے نتائج سامنے آتے ہیں۔‘‘

اسی طرح کشمیر میں تعینات ایک اعلیٰ پولیس افسر کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’جبری دباؤ کے اپنے نتائج ہوتے ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ عسکریت پسند اور عوام ایک ہی صفحے پر ہوں۔ یہ انتہائی تباہ کن نتیجہ ہے۔‘‘

عمر عبداللہ کا کہنا تھا کی فوجی ہتھکنڈوں سے اس بحران میں صرف اور صرف اضافہ ہی ہوگا، ’’آج ہزاروں نوجوان زخمی حالت میں ہسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ انہیں یہاں سے نکلتے ہی ہتھیار فراہم کیے جائیں۔ نوجوانوں میں یہ خوف ختم ہو گیا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔‘‘