1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کلبھوشن سے پاکستان میں ملاقات: بھارت میں اب داخلی سیاست گرم

جاوید اختر، نئی دہلی
27 دسمبر 2017

سزا یافتہ بھارتی ’جاسوس‘ کلبھوشن یادیو کی پاکستان میں ان کی اہلیہ اور والدہ سے حالیہ ملاقات کے بعد دونوں حریف ہمسایہ ممالک کے مابین سخت الفاظ کے تبادلے کے ساتھ ساتھ بھارتی داخلی سیاست میں بھی گرمی پیدا ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2pzpV
اسلام آباد میں کلبھوشن یادیو اپنی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کرتے ہوئےتصویر: Ministry of foreign affairs Pakistan

اس معاملے کی گونج آج بدھ ستائیس دسمبر کو بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں بھی سنائی دی۔ کلبھوشن یادیو کی ان کی والدہ اور اہلیہ کے ساتھ اسی ہفتے ملاقات کے دوران پاکستانی حکام کی مبینہ بدسلوکی پر اگرچہ تمام بھارتی سیاسی جماعتوں نے بیک آواز اپنے طور پر پاکستان کی ’مذمت‘ بھی کی تاہم ملکی اپوزیشن نے اس صورت حال کے لیے مودی حکومت کو بھی قصور وار ٹھہرایا ہے۔
اس معاملے کی سنگینی کے مدنظر مودی حکومت نے اس بارے میں پارلیمان میں ایک باقاعدہ بیان دینے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج کل جمعرات اٹھائیس دسمبر کو اس سلسلے میں ملکی پارلیمان کے دونوں ایوانوں یعنی لوک سبھا (ایوان زیریں) اور راجیہ سبھا (ایوان بالا) میں بیان دیں گی۔

کلبھوشن کی اہل خانہ سے ملاقات: بھارت کی پاکستان پر کڑی تنقید

کلبھوشن یادیو کی اہل خانہ سے ملاقات اور سوشل میڈیا

کلبھوشن یادیو کو پھانسی نہ دی جائے، عالمی عدالت انصاف

نئی دہلی میں ملکی پارلیمان میں آج اس وقت ایک عجیب و غریب صورت پیدا ہو گئی جب اپوزیشن کی سماج وادی پارٹی کے رکن نریش اگروال نے کلبھوشن یادیو کے معاملے پر ایوان میں بات کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان نے کلبھوشن یادیوکو اپنے ملک میں دہشت گرد قرار دیا ہے، تو وہ اسی لحا ظ سے پھر ان کے ساتھ سلوک بھی کریں گے اور ’ہمارے ملک میں بھی دہشت گردوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جانا چاہیے‘۔

نریش اگروال نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ بھارتی میڈیا صرف کلبھوشن یادیو ہی ہی بات کیوں کر رہا ہے جب کہ پاکستانی جیلوں میں سینکڑوں دیگر بھارتی شہری بھی قید ہیں۔

Kulbhushan Jadhav mit seiner Familie
کلبھوشن یادیو کے خاندان کی ان دونوں خواتین کی ان سے ملاقات اسلام آباد میں پاکستانی وزرات خارجہ میں ہوئی تھیتصویر: Reuters/F. Mahmood

اس بیان پر پارلیمان میں خاصا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ وزیر اعظم مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن گری راج سنگھ نے اس بیان کو ’بھارت کو شرمسار کر دینے والا‘ قرار دیا ۔ بی جے پی کے ہی ایک دوسرے رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی نے اگروال سے معافی مانگنے اور ایسا نہ کرنے پر ان کی پارلیمانی رکنیت منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔

کلبھوشن یادیو بھارت کا دہشت گرد چہرہ ہے، پاکستانی دفتر خارجہ

کلبھوشن کی اہل خانہ سے ملاقات

پاکستان نے کلبھوشن یادیو کی بیوی کو ملاقات کی اجازت دے دی

ہندو قوم پرست جماعت ہندو مہاسبھا کے قومی صدر سوامی چکرپانی نے نریش اگروال کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں سے پہلے ایسے رہنماؤں کو گولی مار دینا چاہیے کیونکہ ایسے رہنما ’ملک کے لیے بہت بڑا خطرہ‘ ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے قومی ترجمان جی وی ایل نرسمہن نے بھی اس بیان کو ’ملکی مفادات کے منافی‘ قرار دیا۔ نریش اگروال نے بعد ازاں میڈیا کے سامنے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ’مطلب یہ تھا کہ پاکستان سے کسی انسان دوست رویے کی توقع نہیں کرنا چاہیے‘۔
قبل ازیں اپوزیشن کی جماعت کانگریس نے کلبھوشن یادیو کے حوالے سے تازہ ترین پیش رفت کو مودی حکومت کی سفارتی ناکامی قرار دیا اور اس کے لیے حکومت اور وزیر خارجہ کو مورد الزام ٹھہرایا۔ کانگریس کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ سشما سوراج یا وزیر اعظم نریندر مودی کو کلبھوشن یادیو کی والدہ اور اہلیہ کو اسلام آباد بھیجنے سے قبل پاکستان میں اپنی ہم منصب شخصیات سے بات چیت کرنا چاہیے تھی۔

Indien Parlament in Neu Delhi
نئی دہلی میں بھارتی پارلیمان کی عمارتتصویر: UNI

کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا کہ پاکستان سے اس سے زیادہ بہتر کی امید نہیں تھی لیکن جو کچھ ہوا، اس کے بعد ہم مودی حکومت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں جملہ حقائق پوری وضاحت کے ساتھ پیش کرے گی۔

کانگریس کے ایک اور رکن پارلیمان پرمود تیواڑی نے حکومت سے سوال کیا کہ وہ بھارتی عوام کو بتائے کہ کلبھوشن یادیو کو وطن واپس لانے کے حوالے سے اس کی پالیسی کیا ہے؟ کانگریس کے سینئر رکن اور سابق وزیر منیش تیواڑی نے مودی حکومت کے اقدامات پر ہی سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا، ’’مودی حکومت کلبھوشن یادیو کی مدد کر رہی ہے یا انہیں نقصان پہنچا رہی ہے؟‘‘

کلبھوشن یادیو کی والدہ اور اہلیہ کی پاکستان آمد

منیش تیواڑی نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا، ’’جب سے کانگریس کی قیادت والی این ڈی اے حکومت ختم ہوئی ہے، بھارت دنیا میں الگ تھلگ ہوتا جا رہا ہے۔ بی جے پی کی حکومت خارجہ پالیسی کے محاذ پر ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ خطے میں چینی اثر و رسوخ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔‘‘
اس دوران بی جے پی کے ایک سینئر رہنما اور رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی نے کلبھوشن یادیو کی والدہ اور اہلیہ کے ساتھ پاکستانی حکام کے رویے کو مہابھارت کی اساطیری کہانی کے ایک کردار دروپدی کے ’چیر ہرن ‘ (برہنہ کرنے) کے اس واقعے سے مماثل قرار دیا، جس کی وجہ سے مہابھارت کی جنگ ہوئی تھی۔ سوامی کا کہنا تھا کہ بھارت کو پاکستان کے خلاف جنگ کا اعلان کر دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمیں فوراً ایسا کرنا چاہیے۔ لیکن ہمیں اس کے لیے ابھی سے سنجیدگی سے تیاریاں شروع کر دینا چاہییں۔‘‘

دریں اثناء حکمران جماعت بی جے پی نے بھارتی عوام اور سیاسی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی افراتفری پیدا نہ کریں کیوں کہ اس طرح یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوسکتا ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمان اور ماضی کے معروف فلمی اداکار شتروگھن سنہا نے کہا، ’’یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج اور مرکزی حکومت وزیر اعظم مودی کی رہنمائی میں جس طرح کام کر رہے ہیں، وہ مثبت سمت میں کی جانے والی کوششیں ہیں۔ میں لوگوں سے اپیل کروں گا کہ وہ اس معاملے سے متعلق کوئی افراتفری پیدا نہ کریں اور اسے سفارتی سطح پر پرامن طریقے سے حل کرنے دیا جائے۔‘‘