1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کمبوڈیا نے انسانی دودھ کی برآمد روک دی

مقبول ملک
21 مارچ 2017

جنوبی مشرقی ایشیائی ملک کمبوڈیا نے اپنے ہاں سے انسانی دودھ کی برآمد روک دی ہے۔ کمبوڈین محکمہ کسٹمز کے ایک اہلکار کے مطابق گزشتہ برس پہلی بار شروع کیا گیا اس ملک سے ماؤں کے دودھ کی برآمد کا کاروبار معطل کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2ZgTo
Symbolbild - Muttermilch
تصویر: Getty Images

نوم پین سے منگل اکیس مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق کمبوڈیا میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا اور کئی معاشروں میں اخلاقی وجوہات کی بناء پر ’شجر ممنوعہ‘ سمجھا جانے والا یہ کاروبار 2016ء میں مسیحی عقیدے کی ایک مارمون مشنری شخصیت نے شروع کیا تھا۔

کمبوڈیا کے دارالحکومت میں محکمہ کسٹمز کے ایک اعلیٰ اہلکار راتھ نسائے نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ملکی وزیر خزانہ اون پورن مونی روتھ نے ابھی حال ہی میں ایک ایسی سرکاری دستاویز پر دستخط کر دیے، جس کے تحت اس ملک سے انسانی دودھ برآمد کرنے والی واحد امریکی کمپنی ایمبروزیا لیبارٹریز لمیٹیڈ کو اس کاروبار سے روک دیا گیا ہے۔

پاکستانی ماؤں میں دودھ نہ پلانے کے رجحان سے بچے کمزور

برازیل ميں ماں کے دودھ کا بینک دنیا کے لیے ایک ماڈل

چينی بچوں کے ليے جرمن دودھ

راتھ نسائے نے بتایا کہ وزیر خزانہ کو یہ فیصلہ ان خدشات کے باعث کرنا پڑا کہ شیر خوار بچوں کی جو غریب مائیں اپنا دودھ اپنے بچوں کو پلانے کی بجائے فروخت کر دیتی ہیں، ان کے اس اقدام کے طویل المدتی بنیادوں پر اپنے ہی بچوں کی صحت پر برے اثرات کی نفی ممکن نہیں۔

Muttermilch im Kühlschrank
امریکا میں شیشے کی چھوٹی چھوٹی بوتلوں میں بند ماؤں کا دودھ ایک ریفریجریٹر میں رکھا ہواتصویر: AP

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی ریاست یوٹاہ میں قائم ایمبروزیا لیبارٹریز کے بانی برونزسن ووڈز سے کمبوڈیا کی حکومت کے اس فیصلے پر ان کا ردعمل جاننے کے لیے کی گئی رابطے کی کوششیں ناکام رہیں۔ ووڈز نے گزشتہ برس امریکی اخبار سالٹ لیک ٹریبیون کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کمبوڈیا میں شیر خوار بچوں کی ماؤں کے طور پر جن خواتین سے ان کا دودھ خریدا جاتا تھا، ان کے لیے شرط یہ تھی کہ ان کے دودھ پینے والے اپنے بچوں کی عمریں چھ ماہ سے زائد ہوں۔

ووڈز کے مطابق ان کی کمپنی نے کمبوڈیا کی خواتین سے تجارتی برآمد کے لیے ان کا دودھ خریدنے سے پہلے یہ شرط اس لیے لگائی تھی کہ ایسی خواتین کے اپنے بچوں کے لیے ماں کے دودھ کی دستیابی کی صورت میں کم از کم زندگی کے شروع کے چھ ماہ کے دوران مکمل غذائیت کو یقینی بنایا جا سکے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ کمبوڈیا کی حکومت کو ماؤں کے دودھ کی فروخت اور پھر برآمد کے خلاف اپنا فیصلہ اس وجہ سے کرنا پڑا کہ حال ہی میں ایسی رپورٹیں کافی زیادہ ہو گئی تھیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں بہت غریب مائیں محض کچھ اضافی آمدنی کی خاطر اپنا دودھ اپنے بچوں کو پلانے کی بجائے اس کمپنی کو فروخت کرنے لگی تھیں۔

یہ انسانی دودھ کمبوڈیا میں خرید کر وہاں سے منجمد حالت میں امریکا برآمد کیا جاتا تھا، جہاں اسے اس میں موجود ممکنہ جراثیم نکال کر چھوٹے چھوٹے پیکٹوں میں بیچا جاتا تھا۔ امریکا میں اس انسانی دودھ کے پانچ اونس یا 147 ملی لٹر کے پیکٹ کی قیمت 20 ڈالر رکھی گئی، جو 136 ڈالر فی لٹر بنتی ہے۔

کمبوڈیا کی ایک خاتون نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کی پیدائش کے بعد تین ماہ تک اپنا دودھ بیچتی رہی تھی، ’’میں ہفتے کے سات میں سے چھ دن اپنا دودھ بچے کو پلانے کے بجائے بیچ دیتی تھی اور مجھے دودھ کی مقدار کے لحاظ سے روزانہ ساڑھے سات اور دس امریکی ڈالر کے برابر تک کی آمدنی ہو جاتی تھی۔‘‘