1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کمیونسٹ ماضی والے پولینڈ میں مذہب سے متعلق نئی بحث

22 اگست 2010

ماضی میں کمیونسٹ نظام حکومت والا ملک پولینڈ یورپی یونین کی رکن ایک ایسی ریاست ہے، جہاں کی اکثریتی آبادی کیتھولک مسیحی عقیدے کی حامل ہے لیکن اب وہاں مذہب اور صلیب سے متعلق ایک نئی بحث شروع ہو چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/Otbc
پولینڈ میں ایک مذہبی تقریب کا منظرتصویر: picture-alliance/dpa

پولینڈ کی مجموعی آبادی 38 ملین کے قریب ہے اور وہ یورپی یونین میں شامل مشرقی یورپی ریاستوں میں سے سب سے زیادہ آبادی و الا ملک ہے۔ ماضی میں سوویت بلاک میں شامل ہونے سے پہلے بھی پولینڈ میں کیتھولک کلیسا کا اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا۔ پھر جب پولینڈ میں بھی سوویت یونین کی طرز پر اشتراکی نظام حکومت اپنایا گیا، تو بھی بظاہر لادین ریاست ہونے کے باوجود کیتھولک کلیسا اپنے طور پر عوامی زندگی پر اثر انداز ہوتا رہا۔

لیکن سوویت یونین اور اشتراکی نظام حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی، جب پولینڈ ایک جمہوری ریاست بنا، تو اس ملک میں اور اس کے عوام کے لئے مذہب اور کیتھولک کلیسا کی اہمیت دوبارہ بہت زیادہ ہو گئی۔

NO FLASH Polen Trauerfeier Marienkirche
جہاز حادثے میں مارے جانے والے پولش صدر کی لاش ایک کلیسا میں رکھی گئی تھیتصویر: picture-alliance/dpa

اسی سال اپریل میں صدر لیخ کاچنسکی اور 95 دیگر افراد کی روس میں ایک طیارے کے حادثے میں ہلاکت کے بعد سوگوار شہریوں نے ہلاک شدگان کی یاد میں جب وارسا میں صدارتی محل کے باہر اور کئی دیگر جگہوں پر لکڑی کی صلیبیں رکھ دیں، تو اس ملک میں کئی حلقوں کی طرف سے دوبارہ یہ کہا جانے لگا کہ کیتھولک کلیسا کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو کم کیا جائے۔

ایسے عوامی اور سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ عوام کے مذہبی رجحانات اپنی جگہ لیکن ایک ریاست کے طور پر پولینڈ کو بھی یورپی یونین کی دیگر ریاستوں کی طرح سیکولر ہونا چاہئے۔ ان حلقوں کی رائے میں ملکی سیاست میں مذہب کے بڑھتے ہوئے کردار کو روکا جانا چاہئے اور چرچ کے اثرورسوخ کو بھی محدود کیا جانا چاہئے۔

پولینڈ کی تاریخ میں رومن کیتھولک کلیسا کے زیادہ تر مثبت اور فیصلہ کن کردار سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر وہاں کیتھولک کلیسا صدیوں تک غیر ملکی قابض قوتوں کے خلاف مزاحمت کا مرکز رہا ہے۔ چند عشرے قبل جب مزدوروں کی ٹریڈ یونین سالیڈیریٹی نے سوویت یونین کے حمایت یافتہ کمیونسٹ نظام حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد شروع کی تو بھی اس تحریک کو تحفظ کلیسائے روم کے مقامی نمائندوں نے ہی فراہم کیا تھا۔

5 Jahre Papst Benedikt XVI Polen 2006 Flash-Galerie
آنجہانی لیخ کاچنسکی کیتھولیک مسیحیوں کے روحانی سربراہ پاپ بینیڈکٹ شانزدہم کے ہمراہ ، فائل فوٹوتصویر: AP

پھر دس اپریل کو صدر کاچنسکی کی ہلاکت کے بعد جب ان کے لئے اور ان کے ساتھ ہلاک ہونے والے دیگر افراد کے لئے سوگواری مذہبی تقریبات منعقد کی گئیں تو ملک میں کئی روز تک اکثر کلیسا بھرے ہوئے نظر آئے۔ ملکی دارالحکومت وارسا میں صدارتی محل کے باہر ہلاک شدگان کی یاد میں ایک بہت بڑی صلیب اور پھر ہزاروں شہریوں کی طرف سے مسلسل پھول رکھے جانے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ جیسے یہ جگہ کیتھولک مسیحی عقیدے کے حامل سوگوار شہریوں کے لئے مذہبی اہمیت کا ایک مرکز بن گئی ہو۔

اب چار ماہ سے بھی زائد عرصے بعد وارسا میں صدارتی محل کے باہر تین میٹر اونچی یہ صلیب وہیں رکھی ہے اور وہاں عام شہری بڑی تعداد میں موم بتیاں جلانے اور پھول چڑھانے کے لئے آتے ہیں۔ وارسا حکومت اور مقامی کلیسا نے کافی کوشش کی کہ اس یادگاری جگہ کو صدارتی محل کے باہر سے ایک قریبی کلیسا میں منتقل کردیا جائے، لیکن یہ کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔

اب پولینڈ میں صلیب سے متعلق یہ بحث ملکی سیاست کو دو حصوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ ایک طرف انتہائی سوچ کے حامل دائیں بازو کے وہ سیاسی کارکن ہیں، جو باقاعدگی سے وہاں جمع ہوتے ہیں۔ ان کارکنوں کو اپوزیشن کی بڑی اور قوم پسند جماعت پارٹی برائے قانون اور انصاف کے سربراہ یاروسلاو کاچنسکی کی حمایت حاصل ہے۔ لیخ کاچنسکی یاروسلاو کاچنسکی کے جڑواں بھائی تھے۔

Deutsche Opfer im 2. Weltkrieg in Polen Beisetzung Flash-Galerie
لیخ کاچنسکی کے ہمراہ 95 افراد ہلاک ہوئےتصویر: picture-alliance/ dpa

دوسری طرف وہ سیاسی اور سماجی حلقے ہیں، جن کی رائے میں پولینڈ میں کلیسا اور سیاست کے ایک دوسرے سے بہت قریبی رابطے اچھے نہیں ہیں۔ وارسا میں پبلک افیئرز انسٹیٹیوٹ کے سربراہ کوشارچک کہتے ہیں کہ پولینڈ میں مذہب اور سیاست کے بہت قریبی رابطوں کا مسئلہ طویل عرصے سے پایا جاتا ہے۔ ’’یہ مسئلہ اتنے طویل عرصے سے پایا جاتا ہے کہ بہت سے شہری اب اسے محسوس ہی نہیں کرتے۔‘‘

پولینڈ میں مذہب سے متعلق بحث اور وارسا میں صدارتی محل کے باہر رکھی گئی صلیب کے حوالے سے تازہ ترین بیان نومنتخب صدر کومورووسکی کا تھا، جنہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں امید ظاہر کی کہ صدارتی محل کے باہر رکھی گئی صلیب وہاں سے ہٹا دی جائے گی۔

اسی دوران بائیں بازو کی اپوزیشن یہ شکایت کر رہی ہے کہ ملک میں ’’سیکولرنظریات کا تحفظ اور ملکی آئین کا احترام‘‘ کیا جانا چاہئے، جو ’’فی الحال نہیں کیا جا رہا۔‘‘

رپورٹ:عصمت جبیں

ادارت :شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں