1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کم سن مجرموں کو سزائے موت، ایک المیہ

17 اپریل 2009

دنيا بھر ميں انسانی حقوق کے حامی ايک طويل عرصے سے موت کی سزا کے خاتمے کے لئے کوشش کررہے ہيں۔ بہت سے ملکوں نے سزائے موت ختم کردی ہے، خاص طور سے کم سن مجرموں کی صورت ميں۔

https://p.dw.com/p/HZJp
موت کی سزا کے خلاف احتجاج کے دوران ایک لڑکاتصویر: picture-alliance / dpa

دنیا بھر میں ہونے والی کوششوں کے باوجود ابھی کئی ملکوں ميں موت کی سزا پر عمل کيا جارہا ہے۔ ايران کے پندرہ سالہ سيد رضا حجازی نے جھگڑے ميں ايک لڑکے کو چاقو مار کر ہلاک کرديا۔ اگرچہ اس نے بار بار کہا کہ اس نے يہ جان بوجھ کر نہيں کيا تھا ليکن پھر بھی اسے موت کی سزا سنائی گئی اور پانچ سال قيد کے بعد اسے سزائے موت دے دی گئی۔

بين ا لا قوامی قانون کے تحت کم عمروں کو موت کی سزا دينے کی ممانعت ہے۔ بہت سے ممالک بچوں اور نوجوانوں کو موت کی سزا نہ دينے کاعزم کرچکے ہيں۔ ليکن اس کے باوجود انہيں سزائے موت دی جاتی ہے اور ايسا صرف ايران ميں ہی نہيں ہے۔

انسانی حقوق کی تنظيموں کا کہنا ہے کہ اب بھی پانچ ملک ايسے ہيں جن ميں کم عمر مجرموں کو موت کی سزا دی جاتی ہے ۔ يہ ممالک سعودی عرب، پاکستان، ايران، يمن اورسوڈان ہيں جو کہ سب مسلم ممالک ہيں۔

ہيومن رائٹس واچ نامی تنظيم کی جرمن شاخ کی سربراہ ماريانے ہوئے واگن نے کہا :’’ايران نے بچوں کے حقوق اور سياسی اور شہری حقوق دونوں کے کنونشن پر دستخط کئے ہيں۔ ان دونوں ميں نوجوانوں کی سزائے موت کو ممنوع قرار ديا گيا ہے۔ پاکستان، سوڈان اور يمن بھی ان پر دستخط کرچکے ہيں ۔ ليکن ان ملکوں ميں اکثر قوانين پر عمل نہيں ہوتا يا وہ اپنے بين ا لا قوامی وعدے پورے نہيں کرتے۔‘‘

ايک مسئلہ يہ بھی ہے کہ بعض ممالک بچوں کو کم عمر ہی ميں بالغ تسليم کر لنتے ہيں، مثلا ايران ميں ايک لڑکا پندرہ سال کی عمر ميں اور لڑکی نو سال کی عمر ميں بالغ تسليم کی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سے ملزم اپنی صحيح عمر ثابت ہی نہيں کرپاتے کيونکہ بعض مسلمان ملکوں ميں پيدائش کے سرکاری سرٹيفکيٹ جاری نہيں کئے جاتے۔ ہيومن رائٹس واچ کی ہوئے واگن نے کہا : ’’بعض حالات ميں، خاص طور سے پيدائش کا صداقت نامہ نہ ہونے کی صورت ميں، ڈاکٹر عمر کا اندازہ لگاتا ہے ليکن ان ميں سے بہت سے ڈاکٹر تربيت يافتہ نہيں ہوتے۔ ايک کيس ميں، جس ميں ايک نوجوان کو پھانسی دی گئی، ايک دانتوں کے ڈاکٹر نے معائنے کے بعد اسے بالغ قرار ديا تھا۔‘‘

گذشتہ برسوں کے دوران نوجوانوں کی سزائے موت کے واقعات ميں اضافہ ہوا ہے۔ سن دو ہزار پانچ کے بعد سے انسانی حقوق کی تنظيموں نے ايسے بتيس واقعات کا اندراج کيا ہے۔ اندازہ ہے کہ بہت سی سزاؤں کی اطلاع ہی نہيں مل سکی۔ اکثر، عزيزو اقارب تو کجا وکلاء کو بھی اپنے مؤکل کی موت کا علم نہيں ہوپاتا۔

اس دوران دنيا بھر ميں سزائے موت کو ختم کرنے کی کوششوں ميں اضافہ ہورہا ہے۔ اس سزا کو برقرار رکھنے والے ملکوں کو بھی اسے ختم کرنے کا قائل کرنے کی کوششيں جاری ہيں۔

کئی ناکاميوں کے باوجود انسانی حقوق کے حامی اس سلسلے ميں کاميابيوں کی اطلاع بھی دے رہے ہيں ۔مثلا چين اور امريکہ نے اپنے قوانين ميں تراميم کی ہيں۔

Britta Kleymann / شہاب احمد صديقی