1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کن میلے میں تیونس کے انقلاب کی باز گشت

10 مئی 2011

پولیس انقلابیوں کے ایک ہجوم پر آنسو گیس پھینک رہی ہے جبکہ وہ بلند آواز میں تیونس کا قومی ترانہ گا رہے ہیں۔ آمریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والے عام شہریوں کے اس طرح کے کئی مناظر اِمسالہ کن فلمی میلے میں دیکھے جا سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/11Cw9
تیونس میں مظاہرے
تیونس میں مظاہرےتصویر: picture alliance/abaca

فرانس میں Cannes کے مقام پر دُنیا کا یہ سب سے بڑا بین الاقوامی فلمی میلہ بدھ گیارہ مئی سے شروع ہو رہا ہے اور گیارہ سال کے طویل وقفے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اِس میں تیونس کی کوئی فلم دکھائی جائے گی۔

اِس دستاویزی فلم کا ٹائٹل ہے، No More Fear یعنی ’اب کوئی ڈر نہیں‘۔ 74 منٹ دورانیے کی اِس فلم کے ہدایتکار مراد شیخ ہیں، جنہوں نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ فلم کن میلے کے دوران 20 مئی کو دکھائی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ فلم سابق صدر زین العابدین بن علی کے خلاف جاری عوامی مظاہروں کے دوران HVD (ہولوگرافک ورسٹائل ڈِسک) پر تیار کی گئی۔ واضح رہے کہ بن علی کو 14 جنوری کو بالآخر اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑ گیا تھا۔

کن فلمی میلہ 2011ء
کن فلمی میلہ 2011ءتصویر: picture alliance/dpa

2003ء میں تخلیق ہونے والی The Shepherd of the Stars جیسی مختصر فلموں کے لیے مشہور فلمساز و ہدایتکار مراد شیخ نے بتایا کہ اُن کے لیے اِس فلم کا کن میلے کے لیے منتخب کر لیا جانا ’غیر متوقع‘ تھا۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس فلم کا نام ’اب کوئی ڈر نہیں‘ انقلاب کے دوران ایک دیوار پر لکھے نعرے سے لیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’یہ نام اِس بات کی علامت ہےکہ خوف کی ایک دیوار تھی، جسے اب گرا دیا گیا ہے‘۔

یہ فلم عربی زبان میں ہے لیکن اِس کے سب ٹائٹل انگریزی اور فرانسیسی میں ہیں۔ اِسے حبیب بورقیبہ ایونیو میں فلمایا گیا ہے، جو تیونس میں انقلاب کا مرکز بنا رہا۔ اِس میں یوں تو مظاہروں میں شامل بے شمار چہرے نظر آتے ہیں لیکن اِس انقلاب کی کہانی سنانے کے لیے تین نمائندہ شخصیات کو چُنا گیا ہے، جن میں حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم ایک خاتون وکیل کے ساتھ ساتھ ایک بلاگر اور ایک عام شہری بھی شامل ہے۔

تیونس کے سابق صدر زین العابدین بن علی کو بالآخر احتجاجی مظاہروں کے دباؤ کے باعث اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا اور سعودی عرب میں جا کر پناہ لینا پڑی
تیونس کے سابق صدر زین العابدین بن علی کو بالآخر احتجاجی مظاہروں کے دباؤ کے باعث اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا اور سعودی عرب میں جا کر پناہ لینا پڑیتصویر: AP

فلم کے پروڈیوسر حبیب عاطیہ امید کر رہے ہیں کہ کن فلمی میلے میں نمائش اِس فلم کے لیے یورپی منڈیوں کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک کے سینماؤں کے بھی دروازے کھول دے گی۔

عاطیہ کہتے ہیں کہ فلم کی تیاری کے دوران دو مناظر اُنہیں کبھی نہیں بھولیں گے۔ ایک منظر میں دو پولیس والے ایک مشتعل عوامی ہجوم کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے خود بھی رو پڑتے ہیں، یہ سوچ کر کہ اُن کی اصل جگہ تو اِس ہجوم کے اندر ہے۔

دوسرا منظر اُس نوجوان کا ہے، جسے ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران گولی لگی اور اُس نے کہا: ’’مَیں نہیں مروں گا اور اگر مَیں مر گیا تو اُس (بن علی) کے جانے کے بعد ہی جاؤں گا۔‘‘ یہ نوجوان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا جبکہ بن علی فرار ہو کر سعودی عرب چلا گیا۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں