1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کولون واقعہ: جرمنی ميں مہاجرين کو نفرت کا خدشہ

عاصم سليم8 جنوری 2016

عورتوں اور لڑکيوں کو جنسی طور پر ہراساں کيے جانے کے کولون ميں رونما ہونے والے حاليہ واقعے کے بعد جرمنی ميں اب متعدد پناہ گزين بھی خوف زدہ ہيں اور انہيں شديد رد عمل کا خدشہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1HaKe
تصویر: picture-alliance/dpa/SDMG/Friebe

کوسوو سے تعلق رکھنے والے بتيس سالہ پناہ گزين عاصم ولازنم نے جب کولون ميں نئے سال کی آمد کے موقع پر خواتين کو جنسی طور پر ہراساں کيے جانے کے بارے ميں سنا، تو وہ کافی افسردہ ہو گيا۔ دل ہی دل ميں اس نے سوچا کہ اب تو جرمن شہری مہاجرين سے نفرت کرنے لگيں گے۔ ولازنم کولون ہی کے ايک مہاجر کيمپ ميں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ مقيم ہے۔

پانچ بچوں کے والد ولازنم کو خدشہ ہے کہ حاليہ واقعات کا غير ملکيوں کی مخالفت ميں سامنے آنے والا يہ رد عمل ابھی تو صرف شروع ہی ہوا ہے۔ اس نے کہا، ’’جو کچھ لوگوں نے کولون کے مرکزی ٹرين اسٹيشن پر کيا، وہ شرمناک حرکت ہے۔‘‘ اس کے مطابق واردات ميں ملوث افراد کو سزائے قيد ہونی چاہيے۔

اکتيس دسمبر کی رات کولون کے مرکزی ٹرين اسٹيشن کے باہر نئے سال کی آمد کا جشن مناتے ہوئے درجنوں لڑکيوں اور عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کيا گيا۔ اب تک اس سلسلے ميں 121 خواتين شکايات درج کرا چکی ہيں، جنہيں يا تو جنسی طور پر ہراساں کيا گيا يا ان سے ان کی ذاتی اشیاء جبراً چھين لی گئيں۔ متاثرين کے بقول حملہ آور شراب کے نشے ميں دھت تھے اور ان کی عمريں اٹھارہ سے پينتيس برس کے درميان تھيں۔

پوليس کے مطابق اب تک حملے ميں ملوث اکتيس افراد کی شناخت کر لی گئی ہے، جن ميں اٹھارہ پناہ گزين شامل ہيں۔ تاحال کوئی گرفتاری عمل ميں نہيں آئی ہے۔ جن افراد پر پوليس کو شبہ ہے ان ميں دو جرمن، پانچ ايرانی، ايک سريئن شامل ہيں جبکہ واضح اکثريت عرب اور افريقی شہريوں کی ہے، جن ميں چار شامی، ايک عراقی، مراکش کے آٹھ اور الجزائر کے نو افراد شامل ہيں۔

پوليس اب تک اکتيس حملہ آوروں کی شناخت کر چکی ہے
پوليس اب تک اکتيس حملہ آوروں کی شناخت کر چکی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

عاصم ولازنم کہتا ہے، ’’يہ چانسلر انگيلا ميرکل کے ليے اچھی خبر نہيں ہے۔‘‘ اس نے چانسلر پر اعتماد کا اظہار تو کيا ليکن اس کا يہ بھی کہنا تھا کہ وہ ان دنوں شديد دباؤ ميں ہيں۔ ولازنم نے مزيد کہا، ’’ميں جرمنوں کا شکر گزار ہوں اور ميں ان سے کہنا چاہوں گا کہ وہ خوف زدہ نہ ہوں۔‘‘

دريں اثناء کولون ميں متعدد افراد خوف اور غصے کی جکڑ ميں ہيں۔ اپنے کام پر جاتے ہوئے کولون کی بياليس سالہ شہری روٹے گراسا کہتی ہيں، ’’کافی اچھا ہوگا کہ يہ معلوم ہو سکے کہ ان حملوں ميں کون ملوث تھے تاکہ انہيں ملک بدر کيا جا سکے، چاہے وہ کسی بھی ملک سے ہوں۔‘‘

اسی طرح بوسنيا سے تعلق رکھنے والی ايک خاتون کا اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ہر معاشرے ميں برے لوگ ہوتے ہيں، جو بری حرکتيں کرتے ہيں۔