1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کولِسندور کی میسی‘

افسر اعوان12 نومبر 2015

بنگلہ دیش کے ایک گاؤں کے کوچ موفزالدین نے لڑکیوں کی ٹیم بنانے کا فیصلہ محض پانچ برس قبل یعنی 2011ء میں کیا۔ انہوں نے یہ فیصلہ دراصل لڑکوں کی ٹیم کی طرف سے کوئی بھی ٹورنامنٹ نہ جیتنے کے باعث ان سے مایوس ہونے کے بعد کیا۔

https://p.dw.com/p/1H4YS
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman

پانچ سال سے بھی کم وقت میں نوجوان لڑکیوں پر مشتمل موفز الدین کی ٹیم نے ہر وہ ملکی ٹورنامنٹ جیتا ہے جس میں انہوں نے شرکت کی اور یہ ٹیم نسبتاﹰ قدامت پسند ملک بنگلہ دیش میں مشہور ہو چکی ہے۔

کامیابی کے اس سفر میں انہوں نے کھیل کے میدان میں اپنے جوہر منوانے کے علاوہ اپنے والدین کی طرف سے مخالفت کا بھی سامنا کیا جو ایک ایسے معاشرے میں اپنی بیٹیوں کے کھیل کے میدان کا رُخ کرنے کے حق میں نہیں تھے، جہاں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی عام ہے اور جہاں لڑکیوں کی کھیلوں تک پہنچ بہت ہی کم ہے۔

’’یہ لڑکیاں ہماری ہیرو ہیں‘‘، خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہنا تھا ان لڑکیوں کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے 70 سالہ اکبر علی کا۔ بھارتی سرحد کے قریب گاؤن کولسِندور Kolsindur میں وہ ان لڑکیوں کو پریکٹس کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔

ایک چھوٹے سے ہجوم کے ساتھ گراؤنڈ کے پاس موجود اکبر علی کا مزید کہنا تھا، ’’یہ بہت سی فتوحات لائی ہیں۔ کولسِندور اب ایک مشہور گاؤں ہے اور اسے پورے ملک میں جانا جاتا ہے، صرف ان لڑکیوں کی وجہ سے۔‘‘

کولسِندور کی فٹبال ٹیم سے تعلق رکھنے والی ایک درجن سے زائد کھلاڑی اب تک خواتین کی قومی فٹبال ٹیم میں کھیل چکی ہیں۔ ان میں 12 سالہ طہورا خاتون بھی شامل ہے جسے اس کے ماہرانہ کھیل کے سبب بارسیلونا کے نامور کھلاڑی لیونل میسی کی مناسبت سے ’کولسِندور کی میسی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں، چچاؤں اور دادا کے ساتھ ایک کچے گھر میں رہتی ہے۔ اس نوجوان کھلاڑی کا کہنا ہے کہ اگر اسے اس کے کوچ اور استادوں کا تعاون نہ ملتا تو وہ اس کھیل کو چھوڑ چکی ہوتی۔ طہورا کا خاندان چاہتا ہے کہ وہ اب کھیل ترک کر دے کیونکہ اب وہ ان کے بقول بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔

پانچ سال سے بھی کم وقت میں نوجوان لڑکیوں پر مشتمل اس ٹیم نے ہر وہ ملکی ٹورنامنٹ جیتا ہے جس میں انہوں نے شرکت کی
پانچ سال سے بھی کم وقت میں نوجوان لڑکیوں پر مشتمل اس ٹیم نے ہر وہ ملکی ٹورنامنٹ جیتا ہے جس میں انہوں نے شرکت کیتصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman

بنگلہ دیش میں بہت سی لڑکیاں جب 13 برس کی عمر تک پہنچتی ہیں تو ان کی شادی کردی جاتی ہے اور طہورا کے دادا کو بھی یہی پریشانی ہے کہ اگر وہ کھیل میں مصروف رہی تو اس کے لیے مناسب رشتہ ملنا مشکل ہو جائے گا۔ اس کی ٹیم کی ایک ساتھی کھلاڑی روما اختر نے محض اس لیے کھیل ترک کر دیا کیونکہ اس کے والد کا کہنا تھا کہ وہ خاندان کو بدنام کر رہی ہے، تاہم طہورا مزید کھیلنے کے لیے اپنے عزم پر پکی ہے۔ اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے طہورا کا کہنا تھا، ’’میں چاہتی ہوں کہ لوگ مجھے میرے ٹیلنٹ اور میرے کام کی وجہ سے پہچانیں۔ میں اپنی والدہ کی طرح ایک گھریلو بیوی نہیں بننا چاہتی کہ اپنے میاں کے رحم و کرم پر انحصار کروں۔‘‘

خواتین کا فٹبال گیم میں حصہ لینا بنگلہ دیش میں قدرے نیا رواج ہے۔ جب ملک میں 2009ء میں پہلی بار خواتین کی ٹیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو حکام کو پریشانی تھی کہ شاید فٹبال کھیلنے والی 11 لڑکیاں بھی نہ ملیں۔ مگر اب یہ ٹیم عالمی رینکنگ میں 128ویں نمبر پر ہے۔ یہ بنگلہ دیش کی مردوں کی فٹبال ٹیم سے کہیں بہتر پوزیشن ہے جو 178 پوزیشن پر ہیں۔

کولِسندور کی میسی کا کہنا ہے کہ وہ فٹبال نہیں چھوڑے گی اور اس کی بھرپور خواہش ہے کہ وہ ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے لیونل میسی سے ملے: ’’میں میسی سے درخواست کروں گی کہ وہ مجھے اپنے کچھ گُر سکھا دیں۔‘‘