1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوپن ہیگن کانفرنس: الزام بھی جاری مگر کوششیں بھی

15 دسمبر 2009

کوپن ہیگن میں جاری عالمی ماحولیاتی کانفرنس دوسرے اور فیصلہ کن ہفتے میں داخل ہو گئی ہے۔ ایک طرف جہاں امیر اور غریب ممالک ایک دوسرے پرالزامات عائد کر رہے ہیں وہیں کانفرنس کو ناکامی سے بچانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

https://p.dw.com/p/L3GP
تصویر: AP

عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شریک ملکوں کے وزرائے ماحولیات کی بند کمرے میں مشاورت شروع تو ہوگئی ہے لیکن یہ بات ابھی تک غیر یقینی ہے کہ اس ماہ کی اٹھارہ تاریخ تک کانفرنس کے شرکاء واقعی کسی نئے عالمی موحولیاتی معاہدے کی تفصیلات طے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پہلے ہفتے کے دوران کانفرنس کے مندوبین کے مابین بھرپور بحثیں تو ضرور ہوئیں لیکن کسی اتفاق رائے تک پہنچنے کے سلسلے میں کوئی بڑی پیش رفت نہ ہو سکی۔

کانفرنس میں شریک ترقی پذیر ملکوں کا مطالبہ ہے کہ ترقی یافتہ صنعتی ملک عالمی ماحول کے تحفظ کے لئے زیادہ سے زیادہ کوششیں کریں، اور مالی وسائل بھی مہیا کریں۔ اس لئے کہ عالمی ماحول کی تباہی کا باعث بننے ضرر رساں گیسوں کے اخراج کے زیادہ تر ذمہ دار بھی یہی ملک ہیں، جن میں امریکہ سرِفہرست ہے۔ تاہم کانفرنس میں شریک اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اِس حوالے سے کہا:’’صرف امریکہ ہی نہیں ہے، جسے اپنے ہاں مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ ہر ملک کے اپنے مسائل ہیں لیکن یہ ایک علمگیر چیلنج ہے، جس کا جواب بھی عالمگیر یک جہتی کے ساتھ عالمگیر سطح پر دیا جانا چاہیے۔‘‘

کوپن ہیگن کانفرنس میں مغربی صنعتی ملکوں نے تحفظ ماحول کی کوششوں میں مدد کے لئے بین الاقوامی سطح پر اربوں مالیت کی رقوم فراہم کرنے کی حامی تو بھر لی ہے، لیکن یہ بات ابھی تک متنازعہ ہے کہ آیا یہ رقوم کافی بھی ثابت ہو ں گی۔ پوری دُنیا کی نظریں کوپن ہیگن پر لگی ہیں۔ دنیا کے اَسی مختلف شہروں کے بلدیاتی اور انتظامی اداروں کی طرف سے آج بھی کوپن ہیگن کانفرنس کے شرکاء سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ یہ کانفرنس ہر حال میں کامیاب رہنی چاہئے، اور شرکاء کو لازمی طور پر ایک نئے عالمی ماحولیاتی معاہدے کی تفصیلات پر اتفاق کر لینا چاہیے۔ یہی اپیل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی کی:’’مجھے امید ہے کہ امریہ اِس ضمن میں مزید اقدامات کرے گا لیکن اِس وقت تمام رہنماؤں کو کوپن ہیگن میں ایک منصفانہ، مضبوط اور ٹھوس سمجھوتے پر متفق ہو جانا چاہیے۔‘‘

کافی حد تک اختلاف رائے خود ترقی پذیر ملکوں میں بھی پایا جاتا ہے جو ابھی تک آپس میں یہ طے نہیں کر پائے کہ ان کا اس عالمی اجتماع میں متفقہ موقف کیا ہونا چاہئے۔ اس پس منظر میں کانفرنس میں شریک بھارتی وزیر ماحولیات جے رام رامیش نے آج منگل کے روز کوپن ہیگن میں کہا کہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں ہونے والے مذاکرات اور ان کا اصل مقصد ابھی تک غیر واضح ہیں۔ اس لئے یہ امکان اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ مذاکرات ناکام بھی ہو سکتے ہیں۔

کوپن ہیگن کانفرنس کی ممکنہ ناکامی کے بارے مین یہ رائے صرف بھارتی وزیر ماحولیات ہی کی نہیں، بلکہ کئی مندوبین آئندہ جمعہ کے روز تک جاری رہنے والی اس کانفرنس کے بارے مین اب یہ کہنے لگے ہیں کہ اب اس کانفرنس کی ناکامی کے امکانات اس کی ممکنہ کامیابی کے امکانات کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہیں۔

رپورٹ : عصمت جبین

ادارت : امجد علی