1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کویتی پارلیمان میں پہلی مرتبہ چار خواتین

کشور مصطفی ⁄ ادارت مقبول ملک22 مئی 2009

خلیجی ریاست کویت کی پارلیمان میں پہلی بارچارخواتین کا بحیثیت رکن منتخب ہونا ملکی سیاسی تاریخ کا ایک نیا باب ہے۔

https://p.dw.com/p/HvZz
کویت میں ایک سیاسی کارکنتصویر: AP

تیل کے ذخائرسے مالا مال ، خلیجی ریاست کویت میں پہلی بار خواتین نے انتخابات کے ذریعے پارلیمان تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ حالیہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج میں چارکویتی خواتین نے پارلیمانی نشستوں کے مقابلے میں فتح حاصل کرکے ملکی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے۔ کویت کے پارلیمانی انتخابات میں پہلی بار خواتین کی کامیابی اس معاشرے سمیت تمام خطے اور پوری دنیا کے لئے سیاسی ترقی کی جانب ایک بہت اہم اوربڑا قدم ہے۔ کویت کی خواتین کو یہ کامیابی آسانی اور جلدی سے حاصل نہیں ہوئی۔ 1990 ء میں پہلی بار کویت کی خواتین نے سیاسی سطح پر اپنی آواز بلند کرنے کی جرات کی تھی اورکہا تھا کہ عورتیں بھی ملک اور قوم کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر کام کر سکتی ہیں۔


امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کا نے کویت میں خواتین کی کامیابی پرمسرت کا اظہار کیا۔ تاہم کلنٹن نے کہا کہ کویت اوردیگر ممالک میں سیاسی سطح پر ہونے والی ترقی کے باوجود لڑکیوں اورخواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا سلسلہ جاری ہے۔ ساتھ ہی امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس وقت دنیا مواصلاتی نظام کی ترقی کی وجہ سے قریب ترہو گئی ہے۔ ریڈیو اورانٹرنیٹ کے ذریعے خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف موثر جنگ کی جا سکتی ہے۔

Hillary Clinton.jpg
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹنتصویر: AP


یورپ میں کویت کی پارلیمان میں خواتین کو پہلی بار ملنے والی رکنیت کو خوش آئند اورمثبت قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ فرانس کی انسانی حقوق کے امورکی وزیر راما یاد نے نو منتخب کویتی پارلیمان کی اراکین کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ نئی صورتحال کویت میں مساوی حقوق کے لئے امید کی کرن کی حیثیت رکھتی ہے۔

کویت میں پارلیمانی سطح پرکامیابی حاصل کرنے والی ان خواتین میں اس وقت سب سے معروف شخصیت معصومہ المبارک کی ہے، جنہیں 2005 ء میں کویت کی پہلی خاتون وزیربننے کا اعزازحاصل ہوا تھا۔ معصومہ نے وزارت صحت کا قلم دان سنبھالا تھا ۔ یہ ایک آزاد شیعہ امیدوار کی حیثیت سے سیاسی منظرنامے پرابھری تھیں۔ ان کے علاوہ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی اعتدال پسند خاتون سیاستدان اصیل العواضی، حقوق نسواں کی سرگرم کارکن رولا دشتی اور ڈاکٹر سلویٰ الجسار شامل ہیں۔ اصیل العواضی کویت یونیورسٹی میں سیاسی فلسفے کی پروفیسر ہیں۔ انہوں نے ٹیکساس یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ رولا دشتی کا شمارنہ صرف کویت بلکہ پورے خطے میں سیاسی اصلاحات، جمہوریت اور معاشرے میں خواتین کے مساوی حقوق کی جدوجہد کرنے والی چوٹی کی کارکنوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے 2005 ء میں کویت میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دئے جانے کی مہم میں کلیدی کردارادا کیا تھا۔ ڈاکٹرسلویٰ الجسار ماہراقتصادیات ہیں جو بالٹیمور۔ امریکہ میں قائم جون ہاپکنز یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیں۔

Wahlen Kuwait Dr. Asil Al Awadi feiert Sieg
اعتدال پسند خاتون سیاستدان اصیل العواضیتصویر: AP

کویت کے حالہ انتخابات میں تقریباٍ تین لاکھ پچاسی ہزار شہریوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ جن میں خواتین کا تناسب 54.3 فیصد تھا۔ پارلیمان کی 50 نشستوں پرانتخاب کے لئے کل 210 امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوا۔ ان میں سے 16 خواتین تھیں جن میں سے چار نے کامیابی حاصل کی۔ کویت میں اس سال جنوری سے اب تک ہونے والے ان دوسرے پارلیمانی انتخابات میں سنی رجعت پسندوں کو گذشتہ انتخابات کی نسبت چار نشستیں کم ملی ہیں اوراب پارلیمان میں ان کی تعداد فقط تین رہ گئی ہے۔ تاہم ان رجعت پسندوں کو چند قبائلی سیاست دانوں کی حمایت بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے ایوان میں ان کی تعداد 11 ہوگئی ہے۔


اس الیکشن میں شیعہ قدامت پسند نو نشستوں پر کامیابی کے ساتھ ایک اہم قوت بن کرابھرے ہیں۔ لبرل خیالات کے حامل آٹھ امیدوار بھی اس نئی اسمبلی کا ایک اہم حصہ ہوں گے۔ تاہم کویت کے قبائلی سیاست دان تقریبا دو درجن سیٹوں کے ساتھ نئے ایوان میں سب سے بڑی قوت کے طورپر اپنی طاقت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔