1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کویت کے پارلیمانی انتخابات

Inam Hasan18 مئی 2009

کویت کی پچاس رکنی پارلیمان کے لئے ہونے والے حالیہ انتخابات کے نتائج قدرے ملے جلے رہے لیکن سب سے بڑی پیش رفت یہ کہ اس ملک میں پہلی مرتبہ خواتین سیاستدان پارلیمان میں پہنچ گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/Hsyr
کویت انتخابات میں ایک خاتوں ووٹ ڈالتے ہوئےتصویر: AP

کویت میں گذشتہ ویک اینڈ پر ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے نتائج نے کافی حد تک ملکی سیاست کا رخ ہی موڑ دیا۔ وجہ وہ چارخواتین امیدواربنیں جو پہلی باراب ملکی پارلیمان میں پہنچ گئی ہیں۔

اپنی انتخابی کامیابی کے بعد ان خواتین کا کہنا ہے کہ کویتی عوام نے ملک میں جاری سیاسی کشمکش سے تنگ آکر ایک بڑی سماجی اور معاشی تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اسی تبدیلی کا مظہرہے کہ کویتی پارلیمان میں اب اگر پہلی مرتبہ چار خواتین بھی منتخب ہوئی ہیں تو ان کے سمیت کل 21 ایسے سیاستدان ہیں جو پہلی مرتبہ اس قانون ساز ادارے کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔

پارلیمان کی 50 نشستوں پرانتخاب کے لئے کل 210 امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوا۔ ان میں سے 16 خواتین تھیں جن میں سے چار کامیاب رہیں۔ یہ چاروں خواتین امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکی ہیں اور معاشی اور سیاسی علوم کی ماہر ہیں۔ ان میں سابقہ وزیرمعصومہ المبارک کے علاوہ اصیل الاودھی، رولہ دشتی اور سلویٰ الجسار شامل ہیں۔

کویت میں اس سال جنوری سے اب تک ہونے والے ان دوسرے پارلیمانی انتخابات میں سنی رجعت پسندوں کو گذشتہ انتخابات کی نسبت چار نشستیں کم ملی ہیں اور اب پارلیمان میں ان کی تعداد فقط تین رہ گئی ہے۔ تاہم ان رجعت پسندوں کو چند قبائلی سیاست دانوں کی حمایت بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے ایوان میں ان کی تعداد 11 ہوگئی ہے۔

اس الیکشن میں شیعہ قدامت پسند نو نشستوں پر کامیابی کے ساتھ ایک اہم قوت بن کرابھرے ہیں۔ لبرل خیالات کے حامل آٹھ امیدوار بھی اس نئی اسمبلی کا ایک اہم حصہ ہوں گے۔ تاہم کویت کے قبائلی سیاست دان تقریبا دو درجن سیٹوں کے ساتھ نئے ایوان میں سب سے بڑی قوت کے طور پر اپنی طاقت برقرار رکھ سکیں گے۔ چند اقتصادی ماہرین کے مطابق کویت میں پارلیمان کا انتخاب اوراس کے نتائج بظاہر تبدیلی کی جانب ایک نیا قدم ہیں لیکن نئی حکومت معاشی اصلاحات کے لئے کس رفتارسے کیا اقدامات کرتی ہے، اس کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔

ان انتخابات میں تقریبا تین لاکھ 85 ہزارشہری ووٹ ڈالنے کے اہل تھے جن میں خواتین کا تناسب 54.3 فیصد بنتا ہے۔ ان انتخابات میں ووٹنگ کا تناسب 58 فیصد رہا جو کہ گذشتہ انتخابات سے سات فیصد کم ہے۔ تاہم کویت میں مقیم قریب 3.4 ملین افراد رائے دہی کی حق سے محروم رہے کیونکہ وہ کویتی شہری نہیں ہیں۔

خلیج کی ریاست کویت میں امیدواروں کا تعلق سیاسی جماعتوں کے بجائے مختلف قبیلوں سے ہوتا ہے اور یہی ان امیدواروں کے حلقے تصور کئے جاتے ہیں کیونکہ کویت میں تمام سیاسی سرگرمیوں اور جماعتوں پرپابندی عائد ہے۔ تاہم خلیج کے خطے کی ریاستوں میں سے کویت وہ پہلا ملک ہے جہاں 1963 میں پہلی دفعہ ریاستی مقننہ کے لئے الیکشن ہوئے تھے اور تب سے اب تک کل 13 مرتبہ ایسا ہوچکا ہے۔

اقتصادی اور سیاسی ماہرین کے مطابق کویت میں مجلس الامّہ کہلانے والی پارلیمان کا سب سے بڑا امتحان یہ ہوگا کہ وہ کب اور کیسے عالمی معاشی بحران کے اثرات سے نمٹنے کے لئے پانچ بلین ڈالر کے اس اقتصادی پیکج کو منظور کرتی ہے جسے گذشتہ حکومت نے پیش کیا تھا لیکن جس کی رجعت پسند عناصر نے بھرپور مخالفت کی تھی۔