1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيا روہنگيا مہاجرين ميانمار واپسی کے بعد محفوظ ہوں گے؟

عاصم سلیم
14 جنوری 2018

بنگلہ ديش ميں پناہ ليے ہوئے روہنگيا مسلمانوں کی ان کے ملک ميانمار واپسی کی ڈيل پر عملدرآمد کے ليے پير کو دونوں ملکوں کے حکام ملاقات کر رہے ہيں۔ تاہم کئی مہاجرين ميانمار واپسی سے قبل تحفظ و حقوق کی يقين دہانی چاہتے ہيں۔

https://p.dw.com/p/2qpDk
Bangladesch Rohingya-Flüchtlinge in Palong Khali
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Armangue

اِس وقت حامد حسين کی عمر اکہتر برس ہے۔ وہ سن 1992 ميں پہلی مرتبہ ميانمار سے فرار ہو کر سياسی پناہ کے ليے پڑوسی ملک بنگلہ ديش گيا تھا۔ تاہم ميانمار اور بنگلہ ديشی حکومتوں کے مابين روہنگيا مہاجرين کی واپسی کی ايک ڈيل کے سبب وہ اگلے ہی برس اپنے وطن واپس لوٹ گيا تھا۔ پھر گزشتہ سال ميانمار کی رياست راکھين ميں ايک مرتبہ پھر فسادات پھوٹ پڑے اور حسين نے ايک مرتبہ پھر فرار کا راستہ اختيار کيا۔

ميانمار ميں روہنگيا باغيوں کے حملوں کے رد عمل ميں گزشتہ برس اگست ميں ملکی افواج نے باقاعدہ عسکری کارروائی شروع کی۔ حکومتی دعووں کے مطابق يہ کارروائی صرف مسلح باغيوں کی خلاف ہی تھی تاہم اقوام متحدہ اور ديگر کئی بين الاقوامی امدادی ادارے راکھين ميں ملکی افواج پر روہنگيا کميونٹی کے خلاف پر تشدد حملوں، ان کے ديہاتوں کو نذر آتش کرنے، عورتوں کو جنسی زيادتی کا نشانہ بنانے اور قتل عام کے الزامات عائد کرتے ہيں۔ ميانمار کی حکومت اور فوج ايسے تمام الزامات رد کرتے ہيں تاہم وہاں سے فرار ہونے والے روہنگيا مسلمان اقليت کے اراکين ايسے تمام واقعات کی داستانيں سناتے ہيں۔ تقريباً ساڑھے چھ لاکھ روہنگيا مہاجرين ايسے مبينہ تشدد سے فرار ہو کر پناہ کے ليے بنگلہ ديش پہنچ چکے ہيں۔ اب بنگلہ ديش اور ميانمار کے اہلکار پير پندرہ جنوری کو ملاقات کر رہے ہيں، جس ميں يہ طے کيا جانا ہے کہ روہنگيا مہاجرين کی ان کے وطن واپسی کے ليے گزشتہ برس تيئس نومبر کو طے پانے والی ڈيل پر عملدرآمد کيسے ممکن بنايا جائے۔

روہنگیا مہاجرین کو بنگلہ دیش میں بھوک اور پیاس کا سامنا

حامد حسين اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اس وقت جنوب مشرقی بنگلہ ديش ميں پناہ ليے ہوئے ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس بار معاملات ذرا مختلف ہيں اور روہنگيا زيادہ طويل عرصے تک بنگلہ ديش ميں ہی قيام کر سکتے ہيں۔ حسين نے بتايا، ’’ڈھاکا حکومت نے ہميں پچھلی بار بھی يقين دہانی کرائی تھی کہ وطن واپسی پر ميانمار کی حکومت ہميں حقوق فراہم کرے گی ليکن ايسا نہ ہوا۔ ہم واپس گئے ليکن وہاں کچھ نہيں بدلا تھا۔ اب ہم اسی صورت واپس جائيں گے جب ہميں ہمارے حقوق اور تحفظ کی يقين دہانی کرائی جائے۔‘‘

بدھ مذہب کے ماننے والوں کی اکثريت والے ملک ميانمار ميں سال ہا سال سے وہاں آباد روہنگيا مسلمان کميونٹی کے ارکان کو ’غير قانونی تارکين وطن‘ تصور کيا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے نہ تو انہيں طبی سہوليات اور تعليم جيسے بنيادی حقوق ميسر ہيں اور نہ ہی انہيں اپنی مرضی سے کہيں آنے جانے کی اجازت ہے۔

حکام نے کہا ہے کہ تازہ ڈيل کے تحت وطن واپس پہنچنے والے روہنگيا شہريت کے ليے درخواست جمع کرا سکتے ہيں بشرط يہ کہ وہ يہ ثابت کر سکيں کہ ان کے رشتہ دار سال ہا سال سے اس ملک ميں رہائش پذير ہيں۔ يہ امر اہم ہے کہ سن 1992 ميں طے پانے والے معاہدے کی طرح تازہ ڈيل ميں بھی روہنگيا کو ميانمار کی شہريت دينے کی کوئی شرط نہيں ہے۔