1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Kommentar

Thomas Bärthlein8 اگست 2008

مُشرف کے خلاف عوامی سطح پرمُخالفت کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام اُنہیں قوم کے مفادات کا سودہ کرنے والا سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی تازہ سیاسی صورتحال پر Thomas Bärthlein کا تبصرہ

https://p.dw.com/p/EsYD
تصویر: AP

پاکستان کے سیاسی منظر نامے کا ایک نیا ڈرامائی موڑ۔ ایسا لگتا ہے حکمران اتحاد نے اب صدرپرویز مُشرف کوعہدے سے برطرف کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ صدرمُشرف کے خلاف مواخذے کا فیصلہ حکومتی جماعتوں کا آخری حربہ نظر آتا ہے۔

گزشتہ چند ماہ کےاندرپاکستانی عوام کونئی منتخب حکومت کی کارکردگی سے گہری مایوسی ہوئی ہے۔ ایک طرف جہاں ملک کو درپیش اشیاءِ خوردونوش کی قیمتوں میں تیس فیصد سے زائد اضافے، افغانستان سے مُلحقہ سرحدی علاقے میں طالبان بغاوت، شورش جیسے نا ختم ہونے والے گونا گوں ڈرامائی مسائل تو دوسری جانب حکومتی اتحاد آپس کی الجھنوں میں ہی گرفتارتھا۔ بہت سے مبصرین بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی اور میاں نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ ن کے مابین مسلسل جھگڑے کے پس منظر میں ایک کٹھپتلیاں نچانے والے کو دیکھ رہے تھے۔ یعنی صدر مُشرف۔

Pakistan Präsident Pervez Musharraf Portät
تصویر: AP


پاکستان پیپلز پارٹی اب تک صدرمُشرف کے خلاف سخت گیر اقدامات سے گریز کرتی رہی۔ تاہم اس کی طرف سے پرویز مُشرف کی مُخالفت کُھل کراس وقت سامنےآئی جب صدر نے سیاسی معاملات میں مُداخلت شروع کر دی اورآخرکار پیپلز پارٹی نے حکومتی اتحاد بچانے کے لئے مُشرف سے چھٹکارا حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ساتھ ہی یہ بھی ہوا ہے کہ مشرف کو گزشتہ چند ہفتوں سے واشنگٹن کی وہ پشت پناہی حاصل نہیں ہے جو ایک عرصے سے ملی ہوئی تھی۔ امریکی صدربش نے پاکستانی وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کے حالیہ امریکی دورے کے دوران ان سے نہایت ناخوشگوارسوالات بھی کئے تھے۔ مثلاٍ یہ کہ: آخر پاکستانی خفیہ سروس آئی ایس آئی پراصل کنٹرول کس کا ہے؟ واشنگٹن میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے نے القائدہ کوفضائی حملوں سے پہلے خبردار کر دیا تھا اوریہ کہ اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کو تنہا مُشرف پر چھوڑ دینے کا فیصلہ غلط تھا۔

George W. Bush mit Pervez Musharraf, USA, Pakistan
تصویر: AP

اس وقت یہ بھیانک سوال درپیش ہے کہ پاکستان کی سیاسی صورتحال کیا شکل اختیار کرے گی؟ مُشرف کا ردِعمل کیا ہوگا؟ کیونکہ صدر کے پاس اسمبلی توڑنے کے اختیارات موجود ہیں۔ وہ گزشتہ نومبرکی طرح ایمرجنسی بھی نافذ کر سکتے ہیں۔ زیادہ امکانات اس امر کے ہیں کہ صدر مُشرف مواخذے کےعمل میں ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کریں گے۔دیکھنا یہ ہے کہ طاقتورپاکستانی فوج کا رویہ اب کیا ہونا ہے؟ کیا فوج اپنے سابق سربراہ کا ساتھ دیتی ہے یا نہیں ؟


تاہم سب سے زیادہ مُبہم اور ناقابلِ پیشگوئی صورتحال حکومت کی ہے۔ کیا دونوں سیاسی جماعتیں مُشترکہ پالیسی بنانے اوراس پرچلنے کی اہل ہیں؟ کیا یہ مُشرف کی جانب سے معذول کئے جانے والے ججوں کو بحال کر سکیں گے؟ یہی دراصل جمہوری عمل کے آغاز کا سگنل ہوگا۔ یہی ایک طریقہ ہے ووٹ دینے والے عوام کے اعتماد کو بحال کرنے اور پرانی اسٹبلشمنٹ کو یہ بتانے کا کہ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ہی کام کرنا انکے حق میں ہے۔

اور آخر میں رہ جاتی ہے بین الاقوامی برادری۔ کیا امریکہ واقعی پاکستان میں جمہوریت کے نفاذ کو تسلیم کرے گا؟ کیونکہ مُشرف کے خلاف عوامی سطح پرمُخالفت کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام اُنہیں قوم کے مفادات کا سودہ کرنے والا سمجھتے ہیں۔ایسا اس لئے کہ انھوں نے امریکہ کو پاکستان کی سرزمین پر نام نہاد القائدہ ٹھکانوں پر فضائی حملوںاوردھشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر سینکڑوں پاکستانیوں کوغائب کروا دینے کی اجازت دی۔

Pakistan Präsident Pervez Musharraf und Premierminister Yousaf Raza Gilani
تصویر: AP

امریکہ میں ڈیموکریٹ صدارتی امیدوارباراک اوباما نے بھی جہاں پاکستان میں جمہوریت پرزوردیا وہیں یہ بھی واضح کر دیا کہ امریکہ پاکستان سے دھشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید اقدامات کی امید رکھتا ہے۔ ہر پاکستانی حکومت کے لئے یہ توازن برقرار رکھنا نہایت مشکل ہوگا۔ مُشرف نے گزشتہ برسوں میں پاکستان کو بہت سے ناقابلِ تلافی نقصانات پہنچائے ہیں۔ نئی حکومت کے لئے وہ مسلسل خلل کا باعث بنے رہے۔ اس اعتبار سے جتنے جلدی مُشرف چلے جائیں اتنا بہتر ہوگا تاہم مُشرف کے بغیر بھی پاکستان کی صورتحال بہتراور سہل ترنہیں ہوگی۔